لاڑکانہ (نمائندہ جسارت) عوامی تحریک کی میزبانی میں پریس کلب میں ڈیجیٹل مردم شماری کے ذریعے سندھیوں کی آبادی کم دکھانے، گرین پاکستان منصوبوں کے نام پر سندھ کی زمینوں پر قبضے اور سندھ کے پانی پر ڈاکا ڈالنے کے خلاف کانفرنس کا انعقاد کیا، کانفرنس میں ادیبوں، وکلاء، صحافیوں، کسان اور آبادگار رہنماؤں سمیت سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ گرین پاکستان منصوبہ ختم کیا جائے، ڈیجیٹل مردم شماری کو مسترد کرنے اور مردم شماری اپنے شیڈول کے مطابق کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ کانفرنس میں مرکزی جنرل سیکرٹری نور احمد کاتیار، مرکزی نائب صدر ایڈووکیٹ ساجد حسین مہیسر، مرکزی رہنما سرتاج احمد چانڈیو، معاشی ماہر و عمان یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر احمد نواز ہکڑو، سندھ ہاری تحریک کے مرکزی صدر مصطفی چانڈیو، ادیب و محقق سکندر مغل، آبادگار رہنما ایڈووکیٹ عرفان جتوئی، ایس یو پی لاڑکانہ کے صدر بھٹی، مصنف عیسیٰ میمن، ڈاکٹر سعید میمن، ڈاکٹر ذوالفقار راہوجو، لاڑکانہ پریس کلب کے صدر مرتضیٰ کلہوڑو، خزانچی عبدالقادر جاگیرانی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی ضلع لاڑکانہ کے صدر بھٹی سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما عرفان جتوئی اور دیگر نے شرکت کرکے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے عوامی تحریک کے مرکزی صدر لال جروار نے کہا کہ صدر آصف زرداری گرین پاکستان منصوبوں کے نام پر پورے سندھ کو بیچ رہے ہیں، پیپلز پارٹی سندھ کے وسائل کو نیلام کر رہی ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ کے تمام وسائل غیروں کے حوالے کر دیے، کارونجھر پہاڑ کاٹ کر سندھ کی تاریخی شناخت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سی سی آئی سے ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کا مطالبہ منظور کرلیا، پیپلز پارٹی نے سندھ کے خلاف ڈیجیٹل دہشت گردی میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے، پیپلز پارٹی کے رہنما ڈراما بند کریں، سندھ حکومت سندھی عوام کے بجائے غیروں اور قبضہ مافیا کی پشت پناہی کر رہی ہے، ڈیجیٹل مردم شماری کے ذریعے سندھ کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے، ڈیجیٹل مردم شماری کے ذریعے سندھ کی آبادی کم کرنا سندھیوں کی نسل کشی کے مترادف ہے، سندھ کے عوام جعلی ڈیجیٹل مردم شماری مسترد کرتے ہیں، گرین پاکستان کے منصوبے ختم کیے جائیں، سندھ کی زمینیں سندھی کسانوں کے حوالے کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کی زمینوں کو آباد کرنے کے لیے دریائے سندھ سے نئے ڈیم اور نہریں نکال کر سندھ کو بنجر کیا جا رہا ہے، دریائے سندھ پر کوئی ڈیم اور نہر قبول نہیں۔