مسلمان مکت بھارت! خواب یا فسانہ

342

’’مسلمان مکت بھارت‘‘ ایک انتہاء پسندانہ نعرہ ہے جو ہندوستان میں بعض قوم پرست گروہوں اور افراد کی جانب سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نعرے کا مطلب ہے ’’مسلمانوں سے پاک بھارت‘‘۔ اس کے پیچھے بعض تنظیموں اور افراد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کو صرف ہندوئوں کا ملک سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کی موجودگی کو قبول نہیں کرتے۔ یہ نعرہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور معاشرتی تقسیم کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے نعرے کے پیچھے چند اہم مقاصد یہ ہوسکتے ہیں۔

بعض سیاسی جماعتیں اور افراد مذہبی منافرت اور تعصب کا استعمال کرکے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ تنظیمیں اور افراد ایک مخصوص مذہب کو برتر ثابت کرنے اور دوسرے مذاہب کو کمتر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نعرے کا مقصد مذہبی تفوق کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ بعض افراد اور گروپ سماجی کنٹرول اور دباؤ ڈالنے کے لیے ایسے نعروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کا مقصد اقلیتی طبقات کو خوفزدہ کرکے ان پر اپنا تسلط قائم کرنا ہوتا ہے۔ بعض تنظیمیں اور افراد تاریخی واقعات اور پرانے تعصبات کی بنیاد پر نفرت پھیلاتے ہیں۔ ان کا مقصد معاشرتی انتشار پیدا کرنا ہوتا ہے۔ کچھ شدّت پسند گروپ اپنے نظریات کو فروغ دینے اور فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکانے کے لیے ایسے نعروں کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ بیرونی عناصر یا داخلی مخالفین ملک کے اتحاد اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسے نعرے استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کا مقصد معاشرتی تانے بانے کو کمزور کرنا اور ملک میں انتشار پیدا کرنا ہو سکتا ہے۔ ان مقاصد کے باوجود، ایسے نعرے نہ صرف اخلاقی اور انسانی اقدار کے خلاف ہیں بلکہ ملک کی آئینی اور قانونی بنیادوں کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

بھارت کا ’’مسلمان مکت بھارت‘‘ بننا نہ صرف ممکن نہیں بلکہ غیر حقیقی اور غیر آئینی ہے۔ بھارت کسی مخصوص مذہب کی ملکیت نہیں ہے۔ بھارت کی آبادی مختلف مذاہب، زبانوں، اور ثقافتوں کا مجموعہ ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھارت میں رہتی ہے اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بھارت کی تاریخ میں مسلمانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ تاریخی عمارتیں، ادب، تہذیب، اور دیگر ثقافتی ورثے مسلمانوں کی شرکت کی گواہی دیتے ہیں۔ ’’مسلمان مکت بھارت‘‘ نعرے کی تاریخی حیثیت کا تعلق ہندوستان میں ہندو قوم پرست تنظیموں کی سرگرمیوں اور ان کے نظریات سے ہے۔ یہ نعرہ تاریخی طور پر کئی عوامل سے جڑا ہوا ہے۔ تقسیم ہند (1947ء) کے دوران ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور ان کے نتیجے میں ہندو اور مسلم برادریوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج نے ہندوستانی معاشرے میں تناؤ کو بڑھاوا دیا۔ تقسیم کے بعد، کچھ ہندو قوم پرستوں نے مسلمانوں کو ہندوستان میں بطور شہری قبول کرنے سے انکار کیا اور ان کے خلاف تعصب پیدا کیا۔

آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) اور اس کی نظریاتی تنظیمیں جیسے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل، ہندوتوا نظریے کی حامی ہیں۔ ہندوتوا ایک ایسا نظریہ ہے جس کے تحت ہندوستان کو ایک ہندو ریاست تصور کیا جاتا ہے اور اس میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے محدود جگہ ہوتی ہے۔ 6؍ دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کے انہدام نے فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا اور مسلمانوں کے خلاف تعصب میں اضافہ کیا۔ اس واقعے نے ہندو قوم پرستوں کو مزید تقویت دی اور ’’مسلمان مکت بھارت‘‘ جیسے نعروں کو فروغ دیا۔ گجرات فسادات (2002ء) کے دوران مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد ہوا جس نے ہندو مسلم تعلقات کو مزید خراب کیا۔ ان واقعات نے ہندو قوم پرستوں کے انتہاء پسندانہ نظریات کو مزید مستحکم کیا۔ حالیہ سیاسی ماحول میں برسوں سے، بعض سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے ہندو قوم پرستی کے نعروں کو اپنایا اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کو فروغ دیا۔ یہ نعرہ انہی رجحانات کا ایک حصّہ ہے۔ اس نعرے کے کئی نقصانات ہیں، جو سماجی، اقتصادی، اور سیاسی پہلوؤں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس قسم کے متعصبانہ نعرے سماجی تفرقہ اور نفرت کو بڑھاتے ہیں، جس سے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان امن و محبت کا رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے نعرے فرقہ وارانہ تشدّد اور عدم استحکام کو فروغ دیتے ہیں، جو کسی بھی ملک کی داخلی سلامتی کے لیے شدید خطرناک ہے۔ ایسے نعرے ملک کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی متاثر کرتے ہیں، جس سے بین الاقوامی تعلقات خراب ہوتے ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آتی ہے۔بھارت کی قوت اس کے ثقافتی تنوع میں ہے۔ ’’مسلمان مکت بھارت‘‘ کا نعرہ اس تنوع کو کمزور کرتا ہے۔ ایسے نعرے اقلیتوں میں خوف اور عدم تحفّظ کا ماحول پیدا کرتے ہیں، جو ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے مضر ہے۔ ان تمام نقصانات کے پیش ِ نظر، ایسے نفرت انگیز نعروں کو فروغ دینے کے بجائے بین المذاہب ہم آہنگی اور محبت کو فروغ دینا چاہیے۔

آر ایس ایس کا بہت پرانا ایجنڈا تھا کہ مسلمان مکت بھارت ہو، اور آج بی جے پی اسی ایجنڈے پر سی اے اے (شہریت ترمیمی ایکٹ) اور این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) کی شکل میں عمل کررہی ہے۔ آر ایس ایس کی نظریاتی بنیادوں اور ان کے بانیوں کی تحریروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی تنظیم ہندو راشٹر کے قیام کی حامی ہے، جس میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی موجودگی کو محدود یا ختم کرنا مقصود ہے۔

آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ، ایم ایس گولوالکر، نے اپنی کتاب ’’وی آر آور نیشن ہُڈ ڈیفائنڈ‘‘ میں مسلمانوں کو بھارتی معاشرے سے نکالنے کا نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے مسلم مخالف جذبات کی تشہیر کی اور مسلمانوں کو ملک کے لیے خطرہ قرار دیا۔ وی ڈی ساورکر، جو ہندوتوا نظریے کے بانی تھے، نے بھی مسلمانوں کے خلاف اپنے نظریات پیش کیے۔ انہوں نے مسلمانوں کو دشمن کی حیثیت سے دیکھا اور انہیں بھارت کے لیے خطرہ سمجھا۔ آر ایس ایس کے مختلف رہنماؤں کی تقاریر اور عملی اقدامات بھی ان کے مسلم مخالف نظریات کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہوں نے مختلف مواقع پر مسلمانوں کے خلاف بیانات دیے اور ان کے خلاف تشدد کی حمایت کی۔

آر ایس ایس کے بعض رہنما اور اراکین کھلے عام مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں جو ’’مسلمان مکت بھارت‘‘ جیسے نعروں کی حمایت کرتے ہیں۔ آر ایس ایس سے وابستہ گروہوں کے ذریعے مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کے متعدد واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، گاؤ رکشا کے نام پر مسلمانوں پر حملے، مساجد اور دینی مقامات پر حملے، اور مسلمانوں کے کاروباروں کا بائیکاٹ جیسے واقعات۔

آر ایس ایس کا ہدف ہمیشہ سے ہندو راشٹر کا قیام رہا ہے، جہاں ہندو مذہب اور ثقافت کا غلبہ ہو۔ اس نظریے کے تحت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ سی اے اے اور این آر سی جیسے قوانین کی شکل میں آر ایس ایس کا یہ ایجنڈا عملی طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ قوانین مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور انہیں شہریت ثابت کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جو ان کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یہ شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ’’مسلمان مکت بھارت‘‘ آر ایس ایس کا بہت پرانا ایجنڈا ہے اور ان کے نظریات اور عملی اقدامات میں اس کی واضح جھلک موجود ہے۔

بی جے پی کا محبوب نعرہ رہا ہے، ’’کانگریس مکت بھارت‘‘، ’’اپوزیشن مکت بھارت‘‘ اور ’’مسلمان مکت بھارت‘‘۔ کانگریس اور اپوزیشن مکت بھارت میں بی جے پی کی کیا حالت ہوئی ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ اس طرح کے اقدامات آر ایس ایس کے قدیم ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں اور مسلمانوں کے حقوق اور ان کی موجودگی کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ! ’’مسلمان مکت بھارت‘‘ کا نعرہ ’’بی جے پی مکت بھارت‘‘ بن جائے گا۔

’’مسلمان مکت بھارت‘‘ یعنی مسلمان سے خالی بھارت کا تصور ایک فسانہ ہے، جو تاریخی، سماجی، اور جغرافیائی حقائق کے برعکس ہے۔ بھارت کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں مسلمانوں کا اہم کردار رہا ہے، اور وہ اس ملک کے مختلف پہلوؤں میں گہرے طور پر شامل ہیں۔ مسلمانوں کے بغیر بھارت کا تصور نہ صرف عملی طور پر ناممکن ہے بلکہ اس سے ملک کی تہذیب اور تکثیریت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ بھارت کی تاریخ میں مسلمانوں کی موجودگی کا آغاز صدیوں پہلے ہوا تھا اور انہوں نے مختلف ادوار میں ملک کی ترقی، ثقافت، اور معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دلی سلطنت، مغلیہ سلطنت، اور کئی دیگر مسلم حکمرانوں نے بھارت کی تاریخ اور ثقافت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ آج کے بھارت میں بھی مسلمان ملک کی ترقی میں اہم حصے دار ہیں۔ وہ مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں، چاہے وہ سیاست ہو، سائنس ہو، تعلیم ہو، یا فنون لطیفہ۔ بھارت کا آئین بھی مذہبی آزادی اور تمام مذاہب کے احترام کی ضمانت دیتا ہے۔ کسی بھی مذہب یا طبقے کو ملک سے باہر نکالنے کا خیال بھارت کی آئینی اور دستوری بنیادوں کے منافی ہے۔ لہٰذا، ’’مسلمان مکت بھارت‘‘ کا خواب نہ صرف غیر حقیقی ہے بلکہ ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے خلاف بھی ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ایک بڑی وجہ ان کا آپس میں تقسیم ہونا اور اتحاد کا فقدان ہے۔ جب تک مسلمان متحد تھے، انہوں نے ہر محاذ پر کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن جیسے ہی اتحاد ختم ہوا اور فرقہ واریت نے جڑ پکڑ لی، مسلمان کمزور ہوگئے۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر ایک حصہ تکلیف میں ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔

لیکن آج مسلمان ایک دوسرے کی تکالیف سے بے خبر ہیں۔ اگر مسلمان اپنے ایمان کو مضبوط کریں، آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں، اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کو ادا کریں، تو ان شاء اللہ! وہ دوبارہ سے اپنی عظمت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ خاموشی ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ بعض اوقات ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا اور اپنی آواز بلند کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنی شناخت کو برقرار رکھ سکیں۔