مخصوص نشستوں کے حوالے سے پچھلے دنوں عدالت عظمیٰ کا آٹھ ججوں کی اکثریت سے جو فیصلہ آیا ہے اس نے ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔ حکمران اتحاد کی طرف سے جس قسم کا ردعمل اس فیصلے کے حوالے سے سامنے آیا ہے اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومتی ایوانوں میں بھونچال آگیا ہو اور اہل اقتدار پر لرزہ سا طاری ہوگیا ہے۔ جبکہ گیارہ ججوں کی یہ رائے آئی ہے کہ بلے نشان کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی الیکشن کمیشن نے غلط تشریح کی ہے۔ اسی لیے تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ اس فیصلے سے تحریک انصاف سنگل لارجسٹ پارٹی بن گئی اس کی قومی اسمبلی میں 114 سیٹیں ہو گئیں اور ن لیگ کی 108 سیٹیں ہیں لیکن حکمران اتحاد کی مجموعی گنتی میں کوئی فرق نہیں پڑا وہ تعداد 204 ہے۔ پہلے مخصوص نشستیں ملنے کے بعد حکمراں اتحاد کو جو دوتہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی وہ ختم ہوگئی۔ میرا خیال ہے ملکی سیاست میں ایک اہم موڑ آیا ہے یہ سب کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی انا، ضد اور غصے کو چھوڑیں اور آپس میں مل بیٹھیں اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کی کوشش کریں۔ دوپہر کو یہ فیصلہ آیا اور شام تک حکمران اتحاد کئی میٹنگیں ہوئیں معروف صحافی حامد میر آج کامران خان کے پروگرام میں کہہ رہے تھے میری اطلاعات کے مطابق ان سرکاری میٹنگوں میں کچھ ایسی باتوں پر غور ہوا ہے جو میں یہاں کہہ نہیں سکتا اگر حکومت نے ایسا کیا تو یہ ملکی سیاست کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ حکومت اس پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے والی ہے۔ اپریل کے مہینے سے سن رہے تھے سعودی ولی عہد کا دورہ ہونے والا ہے وہ نہیں آئے یہ ان کی طرف سے ایک خاموش پیغام ہے کہ پہلے اپنے گھر کی در و دیوار کو درست کرلیں یعنی اپنے ملک میں تو سیاسی استحکام لے آئیں پھر ہی بیرونی سرمایہ کاری آئے گی۔ چین کے ایک وزیر تو پچھلے ماہ ہی دورہ کرکے گئے ہیں اور سی پیک کے حوالے سے ان کا بھی یہ پیغام تھا کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے اور دہشت گردی کے جو واقعات کے پی کے میں ہورہے ہیں اس پر قابو پایا جائے۔
ملک کی خوفناک معاشی صورتحال پر قابو پانے کے لیے وزیر اعظم جو دن رات دوڑ دھوپ کررہے ہیں اس میں ان کو کامیابی اسی صورت میں مل سکتی ہے جب وہ ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام لانے کی کوشش کریں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو اپنے لیے طاقت بنائیے اس فیصلے کو اپنی سیاسی شکست سمجھنے کے بجائے ایک سنہری موقع سمجھیں جس میں سے ہی آپ کو آگے بڑھنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ ویسے تو ساری چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اور ملک کی اشرافیہ اور دیگر ادارے سیاسی استحکام کے حصول میں اہم کردر ادا کرتی ہیں اور ان کی بھی اپنی جگہ ایک اہمیت تو ہے لیکن میری نظر میں پانچ سیاسی جماعتیں یا طاقت کے مراکز ایسے ہیں جو ایک جگہ مل بیٹھیں اور کچھ ایسے مشترکہ نکات پر اتفاق کرلیں جس سے ملک میں تصادم اور ٹکرائو کی کیفیت ختم ہو۔ پہلی تحریک انصاف دوسری ن لیگ تیسری پیپلز پارٹی چوتھی عدلیہ اور پانچویں اسٹبلشمنٹ۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، قاضی فائز عیسیٰ اور عاصم منیر ایک میز پر بیٹھ کر سیاسی استحکام کے حصول کے لیے کچھ مشترکہ نکات پر اتفاق کرسکتے ہیں اسی بیٹھک میں آپریشن عزم استحکام پر بھی کچھ ابتدائی گفتگو ہو سکتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی عمران خان آپریشن عزم استحکام کے حوالے حکومت کی طرف سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں اپنی شرکت کا عندیہ دے چکے تھے لیکن ان کی یہ شرکت ایک آبزرور کی حیثیت سے ہوگی۔ فیصلہ آنے کے بعد قوی امکان تھا کہ وہ اے پی سی میں عدم شرکت کا فیصلہ کرلیں یا کوئی ایسی کڑی شرط رکھ دیں جو حکمران اتحاد کے لیے پورا کرنا مشکل ہوجاتا۔ اس فیصلے کے بعد اڈیالہ جیل کا قیدی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا عمران خان کی طرف سے تین مطالبات سامنے آئے ہیں۔ پہلا یہ کہ ان کے تمام مقدمات ختم کرکے انہیں رہا کیا جائے دوسرا یہ کہ تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنان کو رہا کیا جائے اور تیسرا یہ کہ ہمارا چرایا ہوا مینڈٹ واپس کیا جائے۔ یہ مطالبہ مبہم اور پورا کرنا بھی مشکل ہوگا بہرحال اس پر بات تو ہو سکتی ہے، اس لیے کہ مینڈٹ چرانے کی شکایت ہر بڑی سیاسی پارٹی کررہی ہے مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ کے پی میں ہمارا مینڈٹ چرایا گیا ہے تو سامنے کون تحریک انصاف۔ عمران خان کہتے ہیں پنجاب میں ہمارا مینڈٹ چرایا گیا ہے تو سامنے کون، ن لیگ۔ ن لیگ والے الزام لگاتے ہیں کہ پنجاب میں ہمای بعض نشستوں پر مینڈٹ چرایا گیا ہے تو سامنے کون تحریک انصاف۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ دوبارہ انتخاب کرائیں جائیں جو بہت مشکل ہے اور بجٹ بھی نہیں ہے الیکشن سے پورا ملک ہل کر رہ جاتا ہے اس کا ایک دوسرا حل یہ کہ آل پارٹیز کانفرنس میں الیکشن ٹریبونل میں جو پٹیشن گئی ہوئی ہیں ان پر جلدی فیصلہ لینے کی بات کی جائے اور آگے بڑھ کر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فارم 45 اور 47 پر مذاکرات کیے جائیں۔ نئے الیکشن کی طرف جانے کے بجائے اگر اسی متنازع انتخاب کے اہم تنازع کو ایڈریس کرلیا جائے تو سیاسی ماحول میں تنائو کھنچائو کی کیفیت ختم ہوسکتی اور وہ اہم نکتہ یہی ہے کہ فارم 45 میں جو لوگ کامیاب ہوئے ہیں انہیں کامیاب قرار دیا جائے اس کے نتیجے میں جس پارٹی کی اکثریت ہو اسے اقتدار دے دیا جائے، اس کے لیے عمران خان کو اپنی انا کی قربانی دے کر عوام کے لیے سوچنا ہوگا اس کے لیے نواز شریف کو، آصف زرداری کو، چیف جسٹس کو، اور اسٹیبلشمنٹ کو بحیثیت مجموعی سب کو اپنی انائوں کی قربانی دینا پڑے گی صرف اس ملک کے عوام کی خاطر۔
ہم نے یہ مضمون لکھنا شروع کیا تھا کہ حامد میر نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ صحیح نکلا وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کی پریس کانفرنس ٹی وی پر آئی کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان کردیا۔ عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور قاسم سوری پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمات قائم کیے جائیں گے۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا 9مئی حملوں میں عمران کا پورا خاندان ملوث تھا، بس بہت ہوگیا تحریک انصاف اور ملک ساتھ نہیں چل سکتے۔ فارن فنڈنگ، 9 مئی حملے، دہشت گردوں کی واپسی، سائفر کا کھیل، امریکی ایوان میں قرارداد وطن دشمنی ثابت۔ تحریک عدم اعتماد ہوتے ہوئے اسمبلی کی تحلیل کو عدالت عظمیٰ نے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا، شواہد موجود، آرٹیکل 17 حکومت کو سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کا اختیار دیتا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ جب راستہ تصادم تو پھر سب بے معنی، وہ زور لگائیں گے ہم بھی اپنا پورا زور لگائیں گے۔ طلال چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا، دانیا چودھری نے کہا کہ ان لوگوں نے اپنے ہی اداروں پر حملے کیے اس کے ساتھ ہی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں فیصلہ واپس لینے کی اپیل دائر کردی ہے۔ بقول آف دی ریکارڈ کے اینکر کاشف عباسی کے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ اس وقت ایک صفحہ پر نہیں ہیں۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے اعلانات کررہی ہے پابندی لگانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ حکمران اتحاد کی جماعتوں میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنمائوں نے کہا ہے کہ ہمیں اعتماد لینے کی باتیں فضول ہیں پی پی پی کے ایک رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے یا غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں فضول، ناقابل برداشت اور سیاسی بحران میں اضافے کا باعث ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ فارم 47 پر بننے والی حکومت کا تحریک انصاف پر پابندی فاشزم اور فسطائیت کی مثال ہے۔