بڑی دیر کی مہرباں جاتے جاتے

359

امریکا کے صدر جو بائیڈن نے امریکی سیاست سمیت پتا نہیں کس کس چیز پر وختا ڈالا ہوا تھا۔ جسم ساتھ دے رہا ہے نہ ذہن پھر بھی وہ بضد رہے کہ میں تو ایک بار پھر یعنی مزید چار سال کے لیے واحد سُپر پاور کا صدر بنوں گا۔ حق یہ ہے کہ وہ اپنی موجودہ میعاد کے آخری پانچ ماہ بھی ڈھنگ سے گزارنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔

امریکی ووٹرز کی جان میں جان آئی ہے۔ صدر بائیڈن نے ایک ٹویٹ کے ذریعے انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے نائب صدر کملا ہیرس کو ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار بنانے کے حوالے سے اپنی مکمل حمایت کا بھی اعلان کیا ہے۔ 1970 کے عشرے کی آمد پر صدر لِنڈن بی جانسن بھی بیماری اور نقاہت کے باعث انتخابی دوڑ سے الگ ہوئے تھے مگر ہاں، اُنہوں نے بھی دیر کردی تھی اور اِس کے نتیجے میں اُن کے حریف رچرڈ نکسن امریکا کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ امریکا میں اسِ وقت ڈیموکریٹس بہت دباؤ میں ہیں۔ صدر جو بائیڈن کو دوبارہ انتخابی اکھاڑے میں اُتارنا اُن کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اُن کی عمر اور صحت کا معیار دونوں ایسے معاملات تھے جو ڈھکے چُھپے تو نہیں تھے۔ اور پھر اضافی تازیانہ ڈیموکریٹس پر یہ برس گیا کہ صدر بائیڈن نے متواتر بگڑتی ہوئی جسمانی اور ذہنی حالت کے باوجود اپنے آپ کو انتخابی دوڑ سے الگ کرنے کا ذہن بروقت نہیں بنایا یعنی فیصلے کی ٹائمنگ میں غلطی کرگئے۔

انڈیا ٹوڈے نے لکھا ہے کہ انتخابی دوڑ سے الگ ہونا بہت اہم فیصلہ تھا جو صدر بائیڈن کو سالِ رواں کے اوائل میںکرلینا چاہیے تھا۔ امریکا میں روایت رہی ہے کہ جو صدر کے منصب پر ہوتا ہے وہی اپنی پارٹی کی طرف سے صدارتی انتخاب کا امیدوار متعین ہوتا ہے۔ روایت کو بدلا اور توڑا بھی جاسکتا ہے۔ لِنڈن بی جانسن کے کیس میں یہی ہوا تھا۔ صدر بائیڈن کو چلنے پھرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے اور اُن کا بُھلکڑ پن بھی بڑھ چکا ہے۔ اِس وقت وہ کسی انتہائی نازک معاملے پر عالمی قائدین سے مذاکرات کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ رہی سہی کسر کورونا وائرس کے حملے نے پوری کردی۔ برطانوی اخبار گارجین لکھتا ہے کہ امریکا میں انتخابی مہم انتہائی اہم اور نازک موڑ پر ہے۔ ڈیموکریٹس کو انتہائی طاقتور امیدوار کی ضرورت ہے۔ 13 جولائی کو امریکی ریاست پنسلوانیا کے شہر بٹلر میں ایک ریلی کے دوران قاتلانہ حملے نے ری پبلکن صدارتی امیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن قابل ِ رشک حد تک مستحکم کردی ہے۔ پہلے صدارتی مباحثے میں صدر بائیڈن کی افسوس ناک کارکردگی نے جو تھوڑی بہت کسر چھوڑی تھی وہ اس قاتلانہ حملے نے پوری کردی۔ ٹرمپ نئے جوش و جذبے کے ساتھ ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔ بیش تر امریکیوں نے اُنہیں نئے امریکی صدر کے روپ میں دیکھنا بھی شروع کردیا ہے۔

صدر بائیڈن کملا ہیرس کے بارے میں مثبت رائے دے چکے ہیں۔ ڈیموکریٹس بھی اُنہی کو ممکنہ صدارتی امیدوار کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ کملا ہیرس کی تو جیسے لاٹری ہی نکل آئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ڈیموکریٹس کے پاس کملا ہیرس سے بڑھ کر کوئی امیدوار نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدر بائیڈن کے ہاتھوں انتخابی دوڑ میں ڈیموکریٹس کو جو نقصان پہنچا ہے اُس کا ازالہ اِس بات سے ہو جائے کہ کملا ہیرس کی شکل میں ایک خاتون امیدوار سامنے آئے اور امریکا بھر میں خواتین اُن کے لیے اپنائیت محسوس کریں۔ کملا ہیرس کی اب تک کی سیاسی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔ وہ 54 سال کی ہیں۔ صحت بہت اچھی ہے اور شخصیت بھی کم پُرکشش نہیں۔ اگر وہ باضابطہ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار بنتی ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ کو عمر، صحت اور مزاج کے معاملے میں تھوڑی سی عدمِ موافقت کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا۔

نیو یارک ٹائمز نے 12 دن قبل لکھا تھا کہ بائیڈن بیمار ہیں اور ٹرمپ جذباتی و خطرناک۔ امریکی ووٹرز مخمصے کا شکار ہیں کہ ووٹ کِسے دیں۔ اب نیو یارک ٹائمز نے بھی، دیگر امریکی میڈیا آؤٹ لیٹس کی طرح، پسپا ہوکر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ 13 جولائی کے قاتلانہ حملے کے بعد ایسا ماحول رہا ہی نہیں کہ ٹرمپ پر تنقید کی جائے۔ وہ قومی سطح پر ہمدردی کا جُھولا جُھول رہے ہیں۔ معاملات کی خرابی کی حد یہ تھی کہ ٹرمپ کے رننگ میٹ یعنی نائب صدر کے منصب کے امیدوار سینیٹر جے ڈی وینس نے صدر بائیڈن کے استعفے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

صدر بائیڈن کا انتخابی دوڑ سے الگ ہو جانا امریکا میں تھوڑی بہت ہلچل ضرور پیدا کرے گا۔ ڈیموکریٹس کو بہت سوچ سمجھ کر، دانائی اور تحمل سے انتخابی مہم چلانی ہے۔ کیلی فورنیا کے گورنر گیوِن نیوزوم کے علاوہ گریچین وائٹمر، جے بی پرٹزکر، پنسلوانیا کے گورنر جوش شاپیرو اور پیٹ بٹگیگ بھی ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔ صدر بائیڈن نے تو فیصلے میں دیر کردی مگر ڈیموکریٹس کو یہ خطرہ مول نہیں لینا ہے۔

امریکی ووٹرز کا مخمصہ کسی حد تک تو دور ہوچکا۔ اب اُن کے سامنے پسند کی گنجائش ہے۔ کملا ہیرس کی صورت میں اچھا آپشن میسر ہوسکتا ہے۔ صدر بائیڈن اگر جنوری یا فروری میں الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کرلیتے تو بہت کچھ ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں ہوتا۔ خیر، دن رات ایک کرکے ڈیموکریٹس اب بھی بازی اپنے حق میں پلٹ سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ صدر نہ بننا ہی امریکا اور باقی دنیا کے حق میں بہتر ہے۔ ٹرمپ نے انتخابی تقریروں میں جو باتیں کی ہیں وہ انتہائی خطرناک اور کروڑوں امریکیوں کو شدید تشویش میں مبتلا کرنے والی ہیں۔