مزدوروں کی حالت زار دن بدن پہلے ہی ابتر تھی پاکستان میں ٹوٹل لیبر فورس کے ایک فیصد کو بھی ٹریڈ یونین کا حق حاصل نہیں ہے اور سماجی تحفظ تو اس سے بھی بہت کم کو حاصل ہے۔ ایسے میں ایسی قانون سازی کی ضرورت تھی کہ جس کے ذریعے مزدوروں کو ٹریڈ یونین کی آزادی ہو،تمام مزدوروں کو اس کے دائرے میں لایا جائے اور انہیں مکمل سماجی تحفظ دیاجائے ۔ لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ اس بدترین سرمایہ دارانہ نظام نے سندھ لیبر کوڈ اور پنجاب لیبر کوڈ کے نام سے جو قوانین متعارف کرائے ان کے ذریعے مزدوروں کو پہلے سے حاصل قانونی حقوق اور مراعات سے بھی محروم کر دیا گیا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لیبر کو پہلے کی طرح وفاق کی کنکرنٹ لسٹ کا حصہ بنایا جائے اور قومی سطح پر ایک ایسی سہ فریقی لیبر کانفرنس کا اہتمام کیا جائے کہ جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی سنجیدہ شرکت ہو اور حکومت کی طرف سے بالخصوص صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان اس کی سرپرستی کریں۔ ہمارا رونا صرف یہی نہیں ہے بلکہ ملک سے سرمایہ بڑی تیزی کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے اور سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کو پاکستان میں محفوظ نہیں سمجھتے۔ پاکستان پہلے ہی ایک غریب ملک ہے جس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ملک بھی ترقی کرے اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں لیکن انرجی بحران بالخصوص حکمرانوں کے IPPs نے نہ صرف عام عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے بلکہ صنعتی ترقی کا پہیہ روک دیا ہے اور یہ سفاک حکمران ایک ایسی قوم کا آخری قطرہ بھی نچوڑ دینا چاہتے ہیں کہ جو پہلے ہی قریب المرگ ہے امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے جو ماحول پیدا کر دیا ہے اس میں کوئی بھی اس ملک میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتا ایسا لگتا ہے کہ یہ ساری صورت حال جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے روزگار ڈھونڈنے سے نہیں ؎ملتا اور مہنگائی بالخصوص بجلی گیس کے بل پٹرول کی قیمتیں اور کھانے پینے کی روز مرہ کی وہ اشیاء جو ایک غریب مزدور کسان کی لازمی ضرورتیں ہیں وہ ان کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی تقریباً آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ۔ قوم کو بحران در بحران کا سامنا ہے اور وہ لوگ کہ جن کے ہاتھ میں اس ملک کا اقتدار ہے جو اس کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں نہ جانے کیوں ان حالات کی اصلاح احوال کے بجائے ان کا رویہ مزید بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ظلم کا یہ نظام اس قدر بے حس اور سفاک ہے کہ آج قومی سلامتی کو شدید خطرات ہونے کے باوجود وہ کہ جن کو اصلاح احوال کے لیے کچھ کرنا چاہیے وہ بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔ حقیقت تو اللہ جانتا ہے لیکن ایک سوچنے سمجھنے والا شخص جب کوئی تجزیہ کرتا ہے تو وہ اسی نتیجے پر پہنچتا ہے ۔ پاکستان کی مزدور تحریک اس وقت سندھ لیبر کوڈ اور پنجاب لیبر کوڈ کے ظالمانہ قوانین کے خلاف متحد ہوئی
ہے جو کہ خوش آئند ہے لیکن صرف اتنا ہی اتحاد ہے کافی نہیں ہے اس نظام کے ظلم کا شکار سب سے زیادہ مزدور و کسان ہے اور مزدور تحریک ان کی نمائندہ ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مزدور تحریک میں شامل تمام لوگ ان کی حیثیت کم ہے یا زیادہ وہ آج تک کس مقصد کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر اس بدترین ظالمانہ سفاک سرمایہ داری جاگیرداری نظام کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کریں اور اپنے اپنے نظریاتی حصار سے باہر نکل کر پاکستان میں نظام کو بدلنے کے لیے ایک قابل عمل حل کو اختیار کریں جو کہ پاکستان کی عظیم اکثریت کے لیے نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ ان کی اُمنگوں کا آئینہ دار ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والا ایک ایسا گروہ موجود ہے جس کا تعلق مزدور طبقے سے ہے جو مخلص ہے جس کی امانت دیانت اور ایمانداری کے اپنے پرائے سب معترف ہیں اور جس کی خدمت خلق کے میدان میں وسیع خدمات ہیں جو پڑھے لکھے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے اور جن کا تعلق گراس روٹ لیول سے ہے۔