سندھ لیبر کوڈ‘ مزدور کی طبقاتی شناخت اور ایکتا پر حملہ

291

پاکستان کا مزدور طبقہ آئی ایل او اور حکومت سندھ کی جانب سے پیش کردہ سندھ لیبر کوڈ کا کیوں مخالف ہے اسے جاننا انتہائی ضروری ہے۔ محنت کشوں کا بنیادی اعتراض ہے کہ لیبر قوانین کی تشکیل کے لیے ملکی و بین الاقوامی طور پر طے شدہ سہ فریقی ( ورکرز ، مالکان اور حکومت) مشاورتی کے عمل سے گزرے بنا اس مسودہ کو پیش کیا گیا ہے۔موجودہ لیبر قوانین میں اس وسیع پیمانے پر بنیادی تبدیلیوں کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایل او کے کنونشن 144 ، 1976 کے تحت سہ فریقی لیبر کانفرنس کا انعقاد ہو اور اس کانفرنس کی متفقہ سفارشات کی روشنی میں لیبر پالیسی کا اعلان کیا جائے۔ اور پھر اس لیبر پالیسی کی روشنی میں لیبر قوانین کی تشکیل اور قانون سازی کی جائے۔ نہ تو وفاقی یا صوبائی سطح پر کسی سہ فریقی لیبر کانفرنس کا انعقاد کیا اور نہ ہی کوئی وفاقی یا صوبائی لیبر پالیسی کا اعلان ہوا۔

اس حقیقت کو جاننے کے باوجود تمام ضروری مشاورتی مراحل کو روندتے ہوئے سندھ لیبر کوڈ کا مسودہ تیار کرنا آئی ایل او اور حکومت کے غیر جمہوری اور غیر شفاف رویے کی نشان دہی کرتا ہے۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ کوڈ کی آڑ میں کوئی ایسا مزدور دشمن خطرناک کام انجام دینا مقصود ہے جس کا حصول سہ فریقی مشاورتی عمل سے ناممکن تھا۔

مزدوروں کا اصولی موقف رہا ہے کہ مروجہ لیبر قوانین کو مزید بہتر ، قابل عمل ، سہل اور مزدور دوست بنایا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آئی ایل او کی زیر نگرانی تیار ہونے والا نام نہاد ’’ لیبرکوڈ‘‘ مزدور طبقہ کے حالات کار اور اوقات کار میں بہتری لانے کے بجائے وہ بنیادی حقوق بھی سلب کرنے کا عندیہ دے رہا ہے جو اس نے ایک صدی پر محیط طویل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیے ہیں۔ مثال کے طور موجودہ لیبر قوانین میں درج مزدوروں کے مستقل ملازمت کے حق اور ’’مستقل نوعیت کے کام کے لیے مستقل ملازمت‘‘ کے تسلیم شدہ قانونی حق کو ہی یک سر ختم کرتا ہے۔ یہ کوڈ مزدوروں کی زندگیوں میں زہر گھولنے والے غیر قانونی ٹھیکہ داری نظام کی مختلف شکلوں بشمول تھرڈ پارٹی کنٹریکچول سسٹم کو قانون کا درجہ دے کر کارگاہوں میں اُجرتی غلامی کے نظام کو مسلط کرتا ہے جس کا واحد مقصد اصل آجر کو ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کا قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔ اس لیبر کوڈ میں ورکرز کی تعریف کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ، وسیع (گھر مزدور ، ڈومیسٹک پلیٹ فارم ورکرز، ایگری کلچر، فشر یز) اور بہتر بنانے کے بجائے اسے مزید پیچیدہ اور کئی کیٹگریز میں تقسیم کرتے ہوئے انہیں اصل آجر کا ملازم ہونے کے بجائے اکوپایر، ٹھیکہ دار اور پیٹی ٹھیکہ دار، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر اور ریکروٹنگ ایجنسیوں کا ملازم بنا کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتا ہے۔ جس کا واحد مقصد اصل مالکان کو ان کی قانونی ذمہ داریوں سے استثناء دیتے ہوئے فارمل سیکٹر کو انفارمل بنانا ہے۔ جس کا خطرناک نتیجہ یہ ہو گا کہ کسی بھی صنعتی تنازعہ کی صورت مزدور اصل آجر کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی، سوشل سیکورٹی، پنشن، یونین سازی، بونس، اوقات کار اور گریجویٹی جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گے۔

اس کوڈ میں پیشگی (ایڈونس) کے غیر انسانی نظام کو مزید تقویت دینے کی تجویز دی گئی ہے جس کے ذریعے مالکان ورکرز کی خرید و فروخت کر سکیں گے یوں بھٹوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور اور ہاری خان دانوں کی زندگیاں جانوروں سے بدتر ہو جائیں گی۔ پیشگی کا نظام غلامی ہی کی ایک جدید شکل ہے جو یو این او اور آئی ایل او کے کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کوڈ کی بدترین بات یہ ہے اس میں کئی ایک سرکاری اداروں میں ایک سے لے کر پندرہ گریڈ تک کے ملازمین کو موجودہ لیبر قوانین کے تحت حاصل یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کے حق کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو آئی ایل او کے بنیادی کنونشن 87 اور 98 کی خلاف ورزی ہے۔ حق ہڑتال مزدوروں کا بنیادی حق ہے جسے مروجہ لیبر قوانین میں کافی حد تک بے اثر بنا دیا گیا ہے جس کے خلاف مزدور طبقہ مسلسل آواز اٹھا رہا ہے۔

لیکن حق ہڑتال سے متعلق مزدور کے اعتراضات کو دور کرنے کی بجائے مجوزہ لیبر کوڈ میں مزید قدغن لگا کر حق ہڑتال کو عملاً غیر موثر اور تقریبا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ لیبر قوانین میں موجود صنعتی تنازعات کو حل کرنے کے طریقہ کار کو مزدور طبقہ کی پہنچ میں لانے ، آسان بنانے اور بر وقت فیصلہ کرنے کے راستے تلاشنے کے بجائے کوڈ میں ایسے نئے متوازی نظام کو وضع کیا گیا ہے جس میں بیوروکریسی تعددی اعتبار سے دیگر فریقین (آجر اور اجیر) پر حاوی ہوگئی ہے۔ یہ اس قانون کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے جس کے تحت لیبر سے متعلق سہ فریقی کمیٹیوں میں ورکرز اور مالکان کی نمائندگی چالیس چالیس فی صد جب کہ حکومتی نمائندگی بیس فی صد ہوگی۔ سندھ لیبر کوڈ میں بیوروکریسی کے اختیارات کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے لامحدود اختیارات کا حامل بنا دیا ہے۔ لیبر کوڈ کی آڑ میں بیوروکریسی نے خود کو مزید مضبوط کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت سندھ نے سرکاری سطح پر وزیر محنت کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی جس میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ محکمہ صنعت کے سیکرٹری کو شامل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جو سندھ لیبر کوڈ سے متعلق فریقین جن میں مزدور اور آجر شامل ہیں کے تحفظات سے آگاہی حاصل کرے گی۔

اس کمیٹی کا دائرہ اختیار کیا ہوگا ، کس طرح کام کرے گی اور اب تک کیا کیا ہے اس بارے میں شاید خود کمیٹی ممبران کو بھی علم نہیں۔ اگر اس میں آجر اور اجیر کو نمائندگی دی جائے تو سندھ میں لیبر قوانین کو بہتر بنانے کی جانب سنجیدہ پیش رفت ہو سکتی ہے۔ سندھ لیبر کوڈ کے حوالے سے مزدور طبقہ میں اضطراب اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے جس کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایل او کنونشن 144 کے مطابق لیبر قوانین میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے لیے سہ فریقی لیبر کانفرنس کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے ، مشاورت سے لیبر پالیسی کا اعلان کیا جائے اور اس کی روشنی میں لیبر قوانین کی تشکیل نو کی جائے۔