نجی تعلیمی ادارے یا بیگار کیمپ

248

ہر مہذب ریاست میں شہریوں کی صحت اور تعلیم ریاست کے ذمے ہوتی ہے۔ جس طرح دیگر زندگی کے دوسرے شعبوں میں ابتری ہے بالکل اسی طرح تعلیم کا شعبہ بھی زوال کا شکار ہے۔ آئین میں ترامیم کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس شعبہ سے ہمیشہ آنکھیں چرائی رکھتی ہیں۔ معیار تعلیم میں انحطاط آج ہمارا موضوع نہیں ہے۔ آج ہمارا موضوع پڑھا لکھا بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مزدور ہے۔ جس کی کوئی یونین نہیں، کوئی ایسوسی ایشن نہیں ہے۔ چند ملکی لیول کے تعلیمی اداروں کے نیٹ ورک چھوڑ کر باقی زیادہ تر نجی تعلیمی ادارے تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کا استحصال کررہے ہیں۔ تقریباً اکثریت نجی تعلیمی ادارے ایک مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت 37ہزار روپے بھی اپنے اساتذہ کو ادا نہیں کر رہے۔ جبکہ طلباء وطالبات سے بھاری ماہانہ فیسیں وصول کررہے ہیں۔ اکثر نجی تعلیمی ادارے رہائشی علاقوں میں رہائشی مکانوں میں قائم ہیں۔ یہ اساتذہ ان تنگ و تاریک مکانوں میں اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ بعض اداروں میں مجبوری ،بیماری کی چھٹی کی بھی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔عام طور پر گرمیوں کی چھٹیوں سے قبل زیادہ تر اساتذہ کو نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے تاکہ چھٹیوں کی تنخواہ نہ دی جا سکے۔ ان اداروں میں اساتذہ کے لیے کوئی سماجی تحفظ کا نظام نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے اکثر مالکان ان اساتذہ کے حقوق غصب کرتے رہتے ہیں۔ پورے ملک میں
اگر سروے کیا جائے تو ان نجی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ اور معاون عملے کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہم ایسے تمام حکومتی اداروں سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ کوئی بھی تعلیمی ادارہ رجسٹرڈ کرتے وقت ان اساتذہ کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ مالکان کو پابند بنایا جائے کہ وہ ان کو EOBI, سوشل سیکورٹی، ورکرز ویلفیئر بورڈ جیسے اداروں میں رجسٹرڈ کروائے اور ان اعلیٰ تعلیم یافتہ مزدوروں کے لیے ویج بورڈ تشکیل دے کر اس پر عمل درآمد بھی کروایا جائے۔ ان اقدامات سے نہ صرف ’’برین ڈرین‘‘ میں کمی آئے گی۔بلکہ معیار تعلیم میں بھی بہتری آئے گی۔