اللہ تعالیٰ کے نزدیک خدمت خلق ایک نہایت نیک عمل ہے جس کے معاشرے پر بیحد مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس عمل کے ذریعے لوگوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور یہ نیک عمل انسانوں کے درمیان محبت، اخوت اور احترام کے رشتہ کو مضبوط کرتا ہے۔
ہمارے دیرینہ دوست قاضی سراج العابدین کا شمار بھی خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ایسے ہی افراد میں کیا جاتا ہے جو اس معاشرے کے انتہائی کمزور اور نظر انداز شدہ طبقہ کے لیے ایک ہمدرد اور درد مند شخصیت کا درجہ رکھتے تھے۔ یوں تو گزشتہ برس 13 جولائی کو قاضی سراج کی وفات کے بعد سے ان کی محنت کش طبقہ کی صدا کو اپنے صفحہ محنت کے ذریعہ اجاگر کرنے کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں مختلف اخبارات میں مضامین کی اشاعت اور ان کی یاد میں تعزیتی تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے۔
لیکن ہم اپنے زیر نظر مضمون میں محنت کشوں کی دنیا کے معروف اور ہر دلعزیز صحافی قاضی سراج العابدین المعروف قاضی سراج کی زندگی کے چند ایسے گوشوں پر نظر ڈالیں گے جو اب تک ان کے مداحوں کی نظر وں سے اوجھل رہے ہیں۔ اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو قاضی سراج العابدین سے ہماری پہلی ملاقات 1985ء میں نیشنل لیبر فیڈریشن (NLF) کراچی کے دفتر واقع سپر مارکیٹ لیاقت آباد میں ہوئی تھی اس دور میں رفیق احمد این ایل ایف کراچی جنرل سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔
قدیم یونانی نقوش کے حامل ،صحتمند جسم، طویل قامت،گورے چٹے اور خوش اخلاق مزاج کے مالک قاضی سراج سے ایک مختصر ملاقات کے بعد اس دن سے ہی ہمارا ان کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم ہوگیا تھا۔ ہم دونوں ایک ہی علاقہ فیڈرل بی ایریا کے مختلف بلاکوں میں رہائش پذیر تھے ہم بلاک 7 فیڈرل بی ایریا میں اور قاضی سراج بلاک 17 میں رہائش پذیر تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ان دنوں قاضی سراج آمد و رفت کے لیے سہراب سائیکل بھی استعمال کیا کرتے تھے ہم جب کبھی ان سے ملاقات کے لیے ان کے گھر جاتے تو وہ بڑی گرمجوشی سے ملتے اور ہاتھ پکڑ کر ساتھ نزدیکی پارک میں بیٹھ جایا کرتے تھے جہاں ان کے ساتھ مختلف امور پر گفت و شنید کا سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا تھا۔
قاضی سراج روزنامہ جسارت کراچی کے صفحہ محنت کے متحرک انچارج کی حیثیت سے محنت کشوں کی دنیا میں قاضی سراج کے نام سے معروف تھے لیکن ان کا پورا نام قاضی سراج العابدین تھا۔ جنہیں مزدور صحافت سے صرف اپنے پیشہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ ٹریڈ یونین سرگرمیوں اور محنت کشوں کی خبروں اور رپورٹیں اکٹھی کرنے اور انہیں ہر ہفتے پیر کے دن باقاعدگی سے اپنے صفحہ محنت کش پر شائع کرنے کا جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ کراچی شپ یارڈ کی ملازمت سے فراغت کے بعد وہ گزشتہ تین دہائیوں سے شب و روز کسی صلہ اور ستائش کی تمنا کیے بغیر اپنے محدود وسائل اور ناپید سہولیات کے باوجود مرتے دم تک ملک کے لاکھوں مظلوم محنت کشوں کی ترجمانی میں مصروف رہے اور ملک بھر کی ٹریڈ یونین تحریک اور اپنی انتھک محنت کی بدولت محنت کشوں کے طبقے میں ایک محنت کش اور ہر دلعزیز مزدور دوست صحافی کی حیثیت سے اپنی جداگانہ شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔
ہم اکثر سوچا کرتے تھے کہ اگرچہ قاضی سراج العابدین گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ محنت کشوں کی دنیا کی صحافت میں پوری طرح سرگرم عمل ہیں لیکن اس کے باوجود ٹریڈ یونین تحریک کے رہنماؤں اور محنت کشوں کی اکثریت کوان کے پس منظر، خانوادہ ، شخصیت اور ٹریڈ یونین تحریک اور مزدور طبقہ کے لیے طویل اور گرانقدر خدمات کے متعلق کوئی خاص معلومات نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے اصل اور بامعنی نام قاضی سراج العابدین سے بھی واقفیت نہیں ہے۔ چنانچہ ہم نے اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جنوری2021ء میں کراچی پریس کلب میں ان کے ساتھ ایک ظہرانہ کے بعد انہیں ایک تفصیلی انٹرویو کے لیے راضی کیا جس پر انہوں نے بخوشی آمدگی ظاہر کی تھی۔ اس تفصیلی انٹرویو کے دوران انہوں نے ہندوستان میں اپنے خانوادہ، قیام پاکستان کے بعد اہل خانہ کی پاکستان کی جانب ہجرت، حصول تعلیم، تلاش روزگار، پاکستان مشین ٹول فیکٹری سے کراچی شپ یارڈ تک میں اپنی طویل ملازمت، ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر جدوجہد کرنے اور روزنامہ جسارت کراچی کے صفحہ محنت کش کے آغاز اور اس سے اپنی جذباتی وابستگی اور زندگی کے تجربات اور حوادث پر مبنی ایک طویل داستان سنائی۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا پورا نام قاضی سراج العابدین ہے اور انہوں نے 1948ء میں ہندوستان کے ایک علمی اور تہذیبی مرکزعلی گڑھ کے ایک معزز خاندان میں جنم لیا تھا۔ ان کے والد محترم محکمہ پولیس میں کانسٹیبل تھے اور اپنی ذات میں ایک مذہبی اور دیانتدار قسم کے انسان تھے۔ قاضی سراج نے پرائمری تا نویں جماعت تک منٹو سرکل ہائی اسکول علی گڑھ شہر میں تعلیم حاصل کی تھی اور 1964ء میں والد صاحب کی وفات کے بعد پیدا ہونے والے خاندانی مسائل کے پیش نظر کراچی پاکستان میں مقیم ان کے ماموں جان نے ان کے اہل خانہ کو پاکستان بلا لیا تھا۔ کراچی پہنچ کر انہوں نے پاکستان کوارٹرز میں اپنے ماموں جان کے گھر قیام کیا اور انتہائی نامساعد حالات میں اپنے تعلیمی سلسلہ کا دوبارہ آغاز کیا اور 1966ء میں شہر کے ایک نامور تعلیمی ادارہ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، کوتوال بلڈنگ بابائے اردو روڈ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ سٹی کالج ناظم آباد سے انٹر میڈیٹ اور 1971ء میں جناح پولی ٹیکنیک سینٹر ناظم آبادسے میکینیکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا تھا۔ اس دوران اپنی فنی اور نصابی تعلیم کے باوجود وہ 2 برس تک کسی معقول نوکری کی تلاش میں سرگرداں رہے۔
بالآخر ان کی مسلسل جدوجہد کے نتیجہ میں انہیں 1974ء میں پاکستان مشین ٹول فیکٹری (PMTF) کراچی میں آپریٹر کی ملازمت مل گئی تھی، لیکن یہاں دو ماہ کے مختصر عرصہ کام کرنے کے بعد انہیں خوش قسمتی سے جہاز سازی کے قومی کارخانہ کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس (KS&EW) ویسٹ وہارف کراچی میں ٹیکنیکل اسسٹنٹ کے عہدہ پر ملازمت مل گئی تھی۔
اس دور میں کراچی شپ یارڈ میں سینکڑوں کارکنان ملازمت کیا کرتے تھے۔ چونکہ قاضی سراج العابدین کی ذات میں محنت کشوں کی بے لوث خدمت اور انسانیت سے ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ لہٰذا انہوں نے جلد ہی کراچی شپ یارڈ کے محنت کشوں کی خدمت اور انہیں درپیش مسائل کے حل کے لیے ادارہ کی ٹریڈ یونین میں شمولیت اختیار کر لی۔اگرچہ وہ عہدہ کے لحاظ سے یونین کے خزانچی منتخب ہوئے تھے لیکن اپنے ذوق مطالعہ، اخبارات بینی اور لکھنے پڑھنے کے شوق کے باعث قاضی سراج جلد ہی یونین کے لیے پبلسٹی سیکرٹری کی ذمہ داریاں انجام دینے لگے اور اس دوران وہ بڑی بھاگ دوڑ کرکے مختلف قومی اخبارات و جرائد میں نہایت باقاعدگی سے کراچی شپ یارڈ کی یونین کی سرگرمیوں اور محنت کشوں کے مسائل پر مبنی پریس ریلیز، خبریں اور رپورٹیں شائع کرایا کرتے تھے۔
جب تک ہم EOBIکی ملازمت میں رہے تو اس دوران ملازمت کی بیحد مصروفیات کے باعث قاضی سراج العابدین سے گاہے بگاہے ہی ملاقات رہا کرتی تھی اس دوران ان کی ہمارے پبلسٹی ڈپارٹمنٹ میں بھی آمد و رفت بھی جاری رہی۔ لیکن فروری 2020ء میں EOBI کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ہماری سماجی سرگرمیوں میں بیحد اضافہ ہوگیا تھا تو اس دوران پرانے دوست قاضی سراج سے بھی ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا ہم کبھی ان کے ساتھ محنت کشوں کے کسی پروگرام میں شرکت کیا کرتے، کبھی دفتر جسارت میں ملاقات کرتے اور کبھی ان کے ساتھ کراچی پریس کلب جایا کرتے تھے جہاں ان کے ساتھ تفصیل سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران وہ کبھی ہم سے یہ بھی فرمائش کیا کرتے تھے کہ ایسا کرو کسی دن اسکوٹر (موٹر سائیکل کو وہ اسکوٹر کہا کرتے تھے) پر محنت کشوں کے پروگرام میں شرکت کے لیے چلیں گے۔ اس سلسلہ میں وہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا کا مقام طے کرتے اور وہ وقت مقررہ پر وہاں پہنچ جایا کرتے تھے۔
دفتر جسارت کے بعد ان کا دوسرا اہم ٹھکانہ کراچی پریس کلب ہوا کرتا تھا جہاں وہ اکثر ٹریڈ یونین تحریک اور محنت کشوں کی جانب سے منعقد ہونے والی پریس کانفرنسوں کی کوریج کیا کرتے تھے۔اس کے بعد کلب کی کینٹین میں دوپہر کھانے کا دور چلتا، انہیں کراچی پریس کلب میں چائے کے بجائے لسی بیحد مرغوب تھی۔ جس دوران ہم کراچی پریس کلب کے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے تو اس دوران قاضی سراج سے اکثر و بیشتر ملاقاتیں رہا کرتی تھی ایک دن ان کے ساتھ معروف مزدور رہنماء شفیق غوری بھی ہمارے دفتر میں تشریف لائے تھے۔اگر بعض اوقات قاضی سراج کسی وجہ سے محنت کشوں کی کسی پریس کانفرنس یا پروگرام کی کوریج کے لیے کراچی پریس کلب نہ پہنچ پاتے تو وہ ہمیں شام کو فون کرتے کہ آج جو پریس کانفرنس ہوئی ہے انہیں اس کی پریس ریلیز کی ضرورت ہے جس پر ہم پریس کلب کے آفس سے اس پریس کانفرنس کی پریس ریلیز کی تصویر بناکر انہیں بھیج دیا کرتے تھے جس پر وہ بیحد خوش ہوا کرتے تھے۔
قاضی سراج العابدین نے کافی عرصہ قبل موبائل فون کا باقاعدہ استعمال کرنا شروع کردیا تھا جس کے ذریعہ وہ نہ صرف ملک بھر کے ٹریڈ یونین رہنماؤں اور محنت کشوں سے باقاعدہ رابطے میں رہا کرتے تھے بلکہ انہیں واٹس ایپ پر صفحہ محنت کش اور ان کی خبریں بھی ارسال کیا کرتے تھے۔ موبائل فون کے استعمال سے انہیں اپنی صحافتی فرائض انجام دینے میں بیحد آسانی پیدا ہوگئی تھی وہ پروگراموں کی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ اپنے موبائل فون سے تقریب کے مہمانوں اور شرکاء کی تصاویر بنایا کرتے تھے۔ قاضی سراج کوکئی بار بسوں میں دوران سفر جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں اپنے قیمتی موبائل فون سے بھی محروم ہونا پڑا تھا اور ایک بار تو ان کے گھر کے نزدیک ان کا موبائل فون دھوکہ سے ہتھیالیا تھا۔ لیکن وہ اپنے پیشہ کی مجبوری اور ایک لازمی ضرورت کی وجہ سے دوسرے موبائل کا فوری بندوبست کرلیا کرتے تھے۔
جب ہم نے چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر کراچی پریس کلب کی ایڈمنسٹریٹر کی ذمہ داریوں کو خیر باد کہا تو ہمارا یہ فیصلہ ہمارے دوست قاضی سراج کو بالکل پسند نہ آیا وہ بار بار کہا کرتے تھے یار یہ بڑی اہم جگہ ہے اسے مت چھوڑو تم کیوں نہیں سمجھتے۔ جس پر ہم انہیں فیصلہ اور اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے۔ قاضی سراج کی ایک مخصوص عادت تھی کہ جب وہ ہمارے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھتے تو اچانک اپنے دونوں گھٹنوں کو بھیچ لیا کرتے تھے اور کہتے کہ ارے بھائی! ذرا خیال سے چلاؤ، میرے گھٹنے بچانا۔اس انجانے خوف کی وجہ شاید یہ تھی کی قاضی سراج نے جب کبھی دفتر جسارت جانے یا کسی پروگرام میں شرکت کے لیے کسی موٹر سائیکل والے ساتھی، دوست سے لفٹ لی یا بائیکیا کی موٹر سائیکل پر سفر کیا تو اس دوران بعض اوقات اناڑی موٹر سائیکل والوں کی غفلت یا تیز رفتاری کے باعث موٹر سائیکل سلپ ہوئی یا کوئی چھوٹا موٹا حادثہ رونماء ہوا اور ان چھوٹے موٹے حادثات کے نتیجہ میں قاضی سراج کے چلتی موٹر سائیکل سے گرجانے کی وجہ سے ان کے دونوں گھٹنے بری طرح چھل جایا کرتے تھے اور جسم کے دیگر حصے بھی متاثر ہوتے تھے۔ جس کے باعث ان کے دل میں موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے بعد ایک قسم کا خوف بیٹھ گیا تھا۔ ایک بار کا قصہ ہے کہ قاضی سراج کو اپنے صاحبزادہ قاضی معاذ کے ساتھ موٹر سائیکل پرکارساز پل سے شارع فیصل کی جانب جاتے ہوئے عقب سے ایک رکشہ نے زور دار ٹکر مار دی تھی جس کے باعث دونوں باپ بیٹا موٹر سائیکل سے نیچے گر گئے تھے۔لیکن خدا کے فضل و کرم سے انہیں کوئی چوٹ نہیں آئی تھی اور دونوں محفوظ رہے تھے۔
قاضی سراج کی ایک اور دلچسپ عادت یہ تھی کہ جب وہ ہماری کسی تحریر کو دیکھتے تو کہتے یار اسے پڑھ کر سناؤ ایسے مزہ نہیں آئے گا پھر وہ بچوں کی سی معصوم مسکراہٹ کے ساتھ اپنی دونوں آنکھیں میچ لیا کرتے تھے اور اس تحریر کو لفظ بہ لفظ سن کر خوب لطف اندوز ہوا کرتے اور اس دوران وہ اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے زیر لب مسکرایا بھی کرتے تھے اور پوری تحریر سے سننے کے بعد کہتے بھئی واہ! واہ! زبردست، اب ٹھیک ہے۔
قاضی سراج کا طرز زندگی بیحد سادہ اور ہر قسم کی بناوٹ سے پاک تھا۔ وہ سائٹ،کورنگی یا لانڈھی کے صنعتی علاقہ میں محنت کشوں کی کوئی تقریب ہو یا کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں عالمی ادارہ محنت یا ایمپلائرز فیڈریشن کی جانب سے کوئی پروگرام وہ ہمیشہ صاف ستھرے اور ہلکے رنگوں کی قمیص شلوار زیب تن کیے ہوتے، سر پر بنی ہوئی سفید ٹوپی اور ہاتھ میں کپڑے کا تھیلا لیے نظر آ تے تھے۔ اس تھیلے میں صفحہ محنت کش کے شماروں کی کاپیاں ہوا کرتی تھیں جو وہ پروگراموں کے شرکاء میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ قاضی سراج جب تک بلاک 17 فیڈرل بی ایریامیں رہائش پذیر رہے تو وہ اپنی روزمرہ آمدورفت کے لیے بس نمبر 5C یا ویگن W-11میں سفر کیا کرتے تھے لیکن جب سے وہ ٹیچرز ہاؤسنگ سوسائٹی اسکیم 33 سپر ہائی وے پر منتقل ہوئے تھے تو وہ اکثربس نمبر 4L میں سفر کیا کرتے تھے جس کا آخری اسٹاپ ان کے گھر کے قریب ہی قائم تھا۔ بعض اوقات وہ ہمارے ساتھ موٹر سائیکل پر دفتر جسارت اور وہاں اپنے صفحہ محنت کش کے کاموں سے فارغ ہو کر کراچی پریس کلب یا کسی پروگرام میں شرکت کے لیے جایا کرتے تھے۔ قاضی سراج کا اکثر یہ معمول تھا کہ وہ رات کو اپنے گھر کی چھت پر ٹہلنے کے دوران ہم سمیت دیگر دوستوں سے فون پر ٹریڈ یونین تحریک اور محنت کشوں کے مختلف امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ کے مختلف منصوبوں پر بھی بات چیت کیا کرتے تھے۔
قاضی سراج نے ہمیں انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ انہوں نے ملازمت اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے باوجود اپنی اعلیٰ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھا تھا اور اپنے پسندیدہ شعبہ صحافت میں بھی ماسٹرز کی اعلیٰ تعلیم کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ انہوں نے اپنی انتھک محنت اور سخت جدوجہد کی بدولت 1983ء میں مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو سے میکینیکل انجینئرنگ میں بی ٹیک آنرز (B.Tech.Hon) اور 1985ء میں جامعہ کراچی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ایم اے صحافت کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔
چونکہ قاضی سراج کی کراچی شپ یارڈ کی ٹریڈیونین سرگرمیوں اور محنت کشوں کے مسائل کی خبروں اور رپورٹوں کی قومی اخبارات میں اشاعت کے لیے انہیں پریس ریلیز تیار کر کے اور اس کی فوٹو کاپیاں کرا کے اشاعت کی غرض سے مختلف اخبارات کے دفاتر میں باقاعدگی کے ساتھ آمد ورفت رہا کرتی تھی۔ چنانچہ شعبہ صحافت سے ان کے گہرے لگاؤ اور ٹریڈ یونین تحریک میں بیش بہا تجربہ کو مدنظر رکھتے ہوئے 1991ء میں روزنامہ جسارت کراچی کی جانب سے قاضی سراج العابدین کو محنت کشوں کے صفحہ محنت کش کو مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
قاضی سراج اپنی ذات میں ایک سچے اور نظریاتی ٹریڈ یونینسٹ تھے انہیں کراچی شپ یارڈ کے محنت کشوں کے مسائل اور ٹریڈ یونین کے مقاصد سے اس قدر سچا لگاؤ تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے ان کی اعلیٰ تعلیمی و فنی قابلیت اور سینیاریٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں دو بار سپروائزر کے عہدہ پر ترقی کے لیے پیشکشیں کی گئیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ قاضی سراج نے محنت کشوں کے عظیم تر مفاد میں اپنے ملازمتی کیریئر کو قربان کرتے ہوئے دو بار اپنی جائز ترقی لینے سے انکار کر دیا تھا۔ جو ان کی محنت کشوں کے لیے بے لوث خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
قاضی سراج 1995ء تک کراچی شپ یارڈ کی ٹریڈ یونین تحریک کا سرگرم حصہ رہے۔ بعد ازاں 1995ء میں قاضی سراج کو چار و ناچار کراچی شپ یارڈ میں سپر وائزر کے عہدہ پر ترقی کو طوہا وکرہا قبول کرنا پڑا اور وہ 2000ء تک کراچی شپ یارڈ میں سپروائزر کی حیثیت سے بحسن و خوبی خدمات انجام دیتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کراچی شپ یارڈ میں ناساز گار حالات اور تنخواہوں کی بروقت عدم ادائیگی اور دیگر مسائل کے پیش نظر انہیں دیگر محنت کشوں کی طرح 2001ء میں کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس کی انتظامیہ سے سنہری مصافحہ (Golden Hand shake) کرنا پڑا تھا۔ قاضی سراج EOBI کے پنشنر بھی تھے۔ اس سلسلہ میں ہم نے اپنے پرانے دوست ہومیو ڈاکٹر محمد صلاح الدین ریجنل ہیڈ EOBI، ویسٹ وہارف کراچی کے ذریعہ ان کی پنشن کی منظوری کے لیے بھرپور معاونت کی تھی۔ اب ان کی وفات کے بعد ان کی سو فیصد پنشن ان کی بیوہ کو منتقل ہوجائے گی۔ قاضی سراج کبھی کبھار اپنے صفحہ کے لیے اشتہار کے حصول کے لیے بھی EOBI ہیڈ آفس میں قائم ہمارے پبلسٹی ڈپارٹمنٹ آیا کرتے تھے۔ جہاں ان سے ٹریڈ یونین تحریک اورمحنت کشوں کو درپیش مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ کراچی شپ یارڈ کی ملازمت ختم ہونے کے بعد قاضی سراج العابدین نے اپنی بقیہ زندگی کو مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیا تھا اور کل وقتی طور سے نئے جذبہ اور توانائی سے محنت کشوں کی صحافت میں بھرپور انداز سے کام کا آغاز کر دیا تھا۔
قاضی سراج کچھ عرصہ قبل بلاک نمبر 17 فیڈرل بی ایریا سے کراچی کے مضافات میں واقع ٹیچرز ہاؤسنگ سوسائٹی اسکیم 33 منتقل ہوگئے تھے۔ 73 سالہ قاضی سراج کا برسوں سے یہ معمول رہا کہ وہ پیرانہ سالی اور چلنے پھرنے میں مشکلات کے باوجود کسی ذاتی سواری کے بغیر پبلک ٹرانسپورٹ یا کسی مہربان موٹر سائیکل سوار کی مدد سے کراچی شہر کے مختلف صنعتی علاقوں سائٹ، کورنگی، لانڈھی، شمالی کراچی، پاکستان اسٹیل ملز، شپ بریکنگ یارڈ گڈانی اور حب (ضلع لسبیلہ) تک میں قائم صنعتی اداروں اور کارخانوں اور دیگر اداروں کا دورہ کرکے وہاں خدمات انجام دینے والے محنت کشوں کی اجرتوں، حالات کار، درپیش مسائل اور سہولیات کے متعلق معلومات اور آگہی اور ان کے انٹرویو کر کے اسے اپنے اخبار کے صفحہ محنت کش کی زینت بنا کر ان مسائل کو ارباب اختیار اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کی کوششیں کرتے رہے ۔
اسی طرح قاضی سراج وقتاً فوقتاً محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اداروں EOBI، ورکرز ویلفیئر بورڈ، ادارہ سماجی تحفظ (SEESI)، صنعتی تعلقات کے قومی کمیشن (NIRC) محکمہ محنت و ترقی انسانی وسائل کے دفاتر اور مزدور عدالتوں کا دورہ کر کے محنت کشوں کے حالات کار، انہیں میسر سرکاری سہولیات، درپیش مسائل اور زیر سماعت مقدمات سے آ گہی اور معلومات حاصل کر کے ان کی خبریں اوررپورٹیں اپنے صفحہ محنت کش کی زینت بنایا کرتے تھے ۔
باقی آئندہ ملاحظہ کیجیے