الطاف حسین حالی نے نبی کریم کے خْلق اور غریبوں کی داد رسی کی جو تصویر کَشی کی ہے وہ والہانہ مقام مصطفی کی عظمت کو دلوں پر طاری کر دیتی ہے اور آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیسے تھے ہمارے پیارے رسول، غریبوں کے غم خوار، جو تحفہ مال و متاع یا ہدیہ آیا، اپنے پاس نہیں رکھا بلکہ، غریبوں، ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا۔ حالی نے مختصر پیرایہ میں اپنی مشہور نعت میں رسول کریم کے اْس اْسوہ کی نشاندہی کی ہے جو معاشرے کے کمزور طبقات کی خیر خواہی اور حاجت روائی اور پیروی رسول کے حوالے سے ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اگر آپ مکمل نعت سن لیں یا پڑھ جائیں تو آپ ایک کیفیت سے سرشار ہو جائیں گے۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
پاکستان میں اب تک اقتدار پر متمکن رہنے والے حکمرانوں نے غریبوں کا جو حال کر دیا ہے اس کی ایک حقیقی منظر کَشی کو دیکھیے اور پھر حالات کی سنگینی کا اندازہ کیجیے۔ ایک ٹی وی چینل سے وابستہ نمائندہ بجلی بلوں کے ڈسے بلبلاتے عوام کے حصار میں کھڑا لوگوں کی بپتا سن رہا تھا، بجلی دفتر کے باہر کھڑے ہاتھوں میں بل لیے ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور ایک افسر سے دوسرے افسر کی طرف گرمی سے بے حال فٹ بال کی طرح لڑھکائے جانے والے پریشان حال متاثرین کو کیمرہ کے سامنے اپنا دکھڑا سنانے کا موقع مل رہا تھا، لوگ بھی اپنے دل کا غبار نکال رہے تھے، جو بیت رہی تھی وہی بیان کر رہے تھے اور اسی پر ردعمل دے رہے تھے۔ حالات نے ان کو اس قدر زِچ کر دیا ہے کہ وہ اب خود کشی کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 30-32 ہزار روپے اور ماہانہ بجلی کا بل 30-45 ہزار روپے، کرائے کے مکان میں سکونت علٰیحدہ، ان میں دو دن سے مستقل آنے والی، کڑی دھوپ میں قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرنے والی زار و قطار روتی ہوئی اور درد بھری آواز میں فریاد کرتی ہوئی بوڑھی خواتین شاکی ہیں کہ بجلی کے بل بھریں یا بچوں کا پیٹ بھریں، ان میں متوسط طبقہ کے افراد بھی ہیں، ان سب ہی کی ٹی وی چینل کے نمائندہ سے فریاد ہے کہ ان کے گھر ان کے ساتھ چلیں اور دیکھیں کہ گھر میں ایک یا دو پنکھے اور اتنے ہی بلب جلتے ہیں، تو پھر یہ بھاری ظالمانہ بل کیوں؟ ہمیں بلوں کی معافی نہیں چاہیے بس پرانے حساب سے ہی بل چارج کریں جو کہ کسی نہ کسی طرح ادا کر ہی دیے جاتے تھے۔ بعض بجلی کے بل ناقابل یقین، ان میں چھوٹے دکاندار بھی ہیں، ان میں بعض ایسے ہیں جن کا بل ایک لاکھ سے متجاوز ہے، ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں‘‘ کہ مصداق یہ سب بل ادا کرنے پر صرف اس لیے مجبور ہیں کہ اگر بل ادا نہ کریں تو یہ جو چند گھنٹوں کے لیے آنکھ مچولی کرتے بجلی آتی ہے اس سے بھی بجلی کا محکمہ انہیں مکمل ہی محروم نہ کر دے، انَ کا الیکٹرک کنکشن منقطع نہ کر دے، پھر بھلا یہ کیسے کاروبار کریں گے اور جئیں گے کیسے؟، ان میں وہ بھی ہیں جو بجلی کے بل کے ساتھ اپنے بچوں کے لیے پیٹ بھر روٹی اور ننھے بچوں کے لیے دودھ مہیا نہ کرنے پر انتہائی مایوسی اور مجبوری کا اظہار خودکشی کا عندیہ دے کر کر رہے ہیں؟ انسان اپنی ذات پر آئی پریشانیاں تو کسی نہ کسی طرح جھیل لیتا ہے مشکلات کو سہار لیتا ہے لیکن مضبوط سے مضبوط اعصاب والا اس وقت ڈھے جاتا ہے جب وہ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں نہ پوری کر سکتا ہو نہ انہیں خوشیاں بانٹ سکتا ہو۔
گھر لوٹ کر روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
آج معاشرہ ظلم و نا انصافی سے بھرا ہوا ہے، انسانی امکان میں برداشت کی وہ تمام حدود پار ہو چکی ہیں جس کے بعد لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں بالکل اس منظر کی طرح جیسے لب ساحل پر ساحل سے ٹکراتی بپھری ہوئی موجیں سمندر کی تا حد نگاہ خوفناکی کا اعلان کر رہی ہوتی ہیں۔ دور کیوں جائیں چند روز پیش تر کا ایک واقعہ ہے کہ ایک نوجوان جسے ایک جگہ ملازمت شروع کرے تین ماہ ہو چکے تھے اور تنخواہ سے قطعی محروم تھا جس کی وصولی کے لیے اس نوجوان کے تقاضے بھی تھے، اسے اپنے بیمار باپ کے علاج کے لیے رقم درکار تھی، آخر اس کے صبر و تحمل کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا جب تقاضے کے باوجود تنخواہ نہ ملنے پر اس نے کمپنی کے ذمے دار شخص پر حملہ کر کے اسے لہولہان کر دیا اور نتیجے میں وہ شخص اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔ معاشرے میں صرف بجلی کا مسئلہ اور صرف
مہنگائی کا مسئلہ نہیں ہے، بے روزگاری کے ساتھ اور نہ جانے کیا کیا چھپے ہوئے لوگوں کے، خاندانوں کے دیگر اور معاشرتی مسائل ہیں، معاشرہ کے ان سلگتے ہوئے مسائل پر نہ ہمارے حکمران اور نہ ہی ہمارے سیاست دان کسی مستقل حل کی طرف جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت سے ذاتی دشمنی پر اُتر آنے والے یہ سیاستدان بلا تکلف اپنے اصولی موقف سے انحراف کر جاتے ہیں، اس کی تازہ مثال تو سامنے کی بات ہے، جس طرح ماضی قریب میں ایک فریق کی حکومت گرائی گئی ہے تو وہی فریق اپنے ہی اقتدار کے گرانے والے سہولت کار کے ساتھ اب اتحاد کے لیے کوشاں اور سرگرداں ہے تاکہ اسی کی معاونت سے اب وہ اپنے مخالف حکمرانوں کی حکومت زمیں بوس کر سکے، جب کہ نادیدہ قوتیں اپنی مرضی سے ہی حالات کو رخ دینے پر مصر ہیں۔ ایسے میں رہے غریب عوام تو باقی رہے نام اللہ کا، رہے ان کے مسائل تو غالباً حکمران ’’مہنگائی مکائو‘‘ نہیں بلکہ ’’غریب مکائو‘‘ مہم میں اس مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ سیاستدانوں کا طرز عمل بتا رہا ہے کہ اقتدار کے میوزیکل چیئر کا یہ کھیل مختلف شکلوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور ایک دوسرے کو زچ کرنے کے رویوں کے ساتھ جاری رہے گا۔ اقتدار کے بچاؤ اور اس کے حصول کے لیے یہ کسی بھی انتہا پر جانے کے لیے گریز نہیں کریں گے، موجودہ حکمران اتحاد اور حزب مخالف نے اپنے عمل سے چاہے وہ اندرون ملک ہو یا بیرون ملک یہی کچھ ثابت کیا ہے۔ اپنے مفادات اور معاملات سیدھے کرنے کے لیے ہر دو فریق کسی بھی انتہا پر جانے کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔
ایسے حالات میں نہ ملکی معیشت میں سدھار آسکتا ہے اور نہ عوام کے مسائل حل اور نہ ہی انہیں راحت اور سکون میسر ہو سکتا ہے۔
خدارا بچیں اس رد عمل سے کہ جس نے وقت پر تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے باپ کے علاج میں ناکامی کے رد عمل میں ضبط کا دامن چھوٹنے پر جو کیا وہ نہ اس کے اپنے ہی اور نہ ہی کمپنی کے مالک کے حق میں اچھا نکلا اور نہ ہی باپ کی بیماری کا علاج کرا سکا۔ ہے کوئی جو دبے پاؤں آتے عوامی انقلاب کی آہٹ سن سکے اور دستک محسوس کر سکے۔