عرصے سے جاری اسٹیبلشمنٹ اور کٹھ پتلیوں کے مکروہ سیاسی تماشے میں قوم رُل کئی ہے، ملکی معیشت تباہ ہوگئی ہے، جمہوریت گندگی میں لتھڑ گئی ہے، سیاست کا چہرہ بدنما ہو گیا ہے اور اخلاقیات کی لاش سے بدبو کے بھبوکے اٹھ رہے ہیں۔ ملک کا پورا نظام مجموعی طور پر تعفن زدہ ہوچکا ہے۔ حالات اتنے اذیت ناک اور غیر یقینی بنا دیے گئے ہیں کہ ایک سروے کے مطابق چورانوے فی صد لوگ اس ملک سے نکل جانا چاہتے۔ مختصر یہ کہ میرے خوب صورت ملک کو لالچی کرپٹ سیاستدانوں، حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں نے عام آدمی کے لیے جہنم بنا دیا ہے۔
طاقت کے نشے میں بدمست اسٹیبلشمنٹ آنے والے دنوں میں کیا کھیل کھیلتی ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ظاہری طور پر نظر یہی آرہا ہے کہ حالات پی ٹی آئی کے لیے سازگار بنتے یا بنائے جا رہے ہیں۔ اس بہتری میں سب سے اہم کردار ظاہری کٹھ پتلی حکمرانوں اور ان کے پیچھے بیٹھے بے اصول طاقتوروں کا ہے۔ عام آدمی کی زندگیوں کوعذاب بنا دینے والے حکومتی اتحاد کے ظالمانہ مشکل فیصلوں نے نااہل پی ٹی آئی کو ہیرو بنا دیاہے۔ پی ٹی آئی دور کی مہنگائی، آئی ایم ایف اور اسٹیبلشمنٹ کی غلامی کو لوگ بھول گئے ہیں۔ عبوری حکمرانوں اور فارم 47 کے گھس بیٹھیوں نے جس بے دردی اور بے شرمی سے عوام کو رلایا اور خواص کو نوازا ہے اس سے اسٹیبلشمنٹ اور اس کے کٹھ پتلیوں سے نفرت بڑھی اور نیازی ہیرو بن گیا۔
یہ سچ ہے کہ اگر حالیہ انتخابات کے نتائج فارم 45 کے مطابق جاری ہو جائیں تو گھس بیٹھیے ٹبر، زرداری اور کراچی کے مسترد لسانیت پرست ٹولے کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ فارم 47 کی دھول بیٹھے گی تو اس الیکشن کی اصل فاتح پی ٹی آئی ہی نظر آئے گی۔ اگر نئے الیکشن ہوتے ہیں اور بڑی دھاندلی نہیں ہوتی نتائج بھی فارم 45 کے مطابق جاری ہوتے ہیں تو ملک کی سیاسی فضا بتا رہی ہے کہ پی ٹی آئی پہلے سے زیادہ سیٹیں جیتے گی۔ اقتدار کے ایوان میں خان کی ممکنہ واپسی کے امکان کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ گزارشات۔
خان یا پی ٹی آئی اپنی فطرت اور سوچ بدلے گی یہ بہت مشکل ہے مگر پھر بھی کہنے میں کیا حرج ہے۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اسٹیبلشمنٹ اور ان کے مسلط کردہ جعلی حکمرانوں سے نفرت کے ساتھ ساتھ ان وعدوں اور سہانے سپنوں کا بھی بہت دخل ہے جو نیازی صاحب نے قوم کو دکھائے ہیں۔ خان کے ’’مریدوں‘‘ اور قوم کو سب سے بڑی امید یہ ہے کہ عمران خان ملک وقوم کو دنیا میں ایک باعزت مقام دلانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالے گا۔ اس کے علاوہ خان کے دیوانوں کو یہ بھی امید ہے کہ خان معیشت کو آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات دلائے گا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کم ہوگی۔ بجلی کمپنیوں (آئی پی پیز) کی چیرہ دستیاں اور ان کے ساتھ کیے گئے عوام دشمن معاہدے ختم ہوں گے۔ عدالتی نظام بہتر ہوگا۔ فرعونی پروٹوکول سے جان چھوٹے گی ملک خوش حال ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ اگر اللہ تعالیٰ خان کو ایک موقع عطا فرما رہا ہے تو خان کو اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پچھلے دور میں جو غلطیاں ہوئی ہیں اس کے اسباب کا تجزیہ کرنا اور ان سے بچنے کی ترکیب کرنی چاہیے۔ خان کو اپنے وعدوں اور دعووں کو عملی شکل دینے کے لیے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مینڈیٹ چور حکمرانوں کی طرف سے خان یا خان کے حمایتیوں پر بنائے جانے والے تمام مقدمات بے بنیاد اور سیاسی انتقام پر مبنی ہیں۔ ان کا مقصد سیاسی دباؤ کے سوا کچھ نہیں۔ قوم، ملک، عوام اور ووٹر کی بہتری کے لیے ایک بہت ہی اہم چیز یہ ہے کہ خان اگر اگلے متوقع دور کو اپنے اور اپنی پارٹی کے لیے مقبول بنانا چاہتا ہے تو انتقامی سیاست سے مکمل اجتناب کرنا ہوگا۔ خان کو معلوم ہوگا کہ انتقام وہ اندھا کنواں ہے جس میں ساری مثبت کاوشیں ڈوب جائیں گی حاصل کسی کو کچھ نہیں ہوگا۔ مجھ جیسے مایوس لوگوں کو یقین ہے کہ خان کا ریاست مدینہ کا نعرہ اسلامی ٹچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خان کے پاس نہ ریاست مدینہ کا کوئی پروگرام ہے نہ لوگ۔ خان کی ٹیم سے ریاست مدینہ کی نہ کوئی امید ہے اور نہ یہ خان کے بس کی بات۔ اس لیے اس کو رکھیں ایک طرف۔ اگر ساڑھے تین سالہ اقتدار میں اور اس کے بعد کے دور میں اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھا ہے اور ملک میں کوئی مثبت معاشی اور سیاسی تبدیلی لانی ہے اور کوئی بہتری لانی ہے تو انتقامی سیاست کو خیرباد کہنا اور اس سے قطعی دور رہنا مختصر یہ کہ اگر حالیہ انتخابات کا نتیجہ فارم 45 کے مطابق قبول کیا جاتا ہے تو خان کی کم از کم تین اسمبلیوں میں اکثریت نظر آئے گی۔
اگر ان انتخابات کو کالعدم کر کے جھرلو کے بغیر اور فارم 45 کے تحت نئے انتخابات کرائے جاتے ہیں تو یقین ہے کہ مرکز اور تین صوبوں میں خان جھاڑو پھیر دے گا۔ عوام کا مزاج اور تیور یہی بتا رہے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگادی جاتی ہے تو یہ لولی لنگڑی جمہوریت کا ذبیحہ ہوگا۔ ستر سال سے بیمار جمہوریت ویسے ہی اتنی لاغر ہے کہ مر مر کر چل رہی ہے۔ اوّل تو خان کی پارٹی پر پابندی لگانا مجذوب کی بڑھ ہے لیکن اگر یہ حماقت کر لی گئی تو اس کے بعد جو ہوگا وہ اچھا نہیں ہوگا۔