کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) قومی اتفاق رائے نہ ہونے سے دہشت گردی بڑھی‘ نیشنل ایکشن پلان کو بہتربنایاجائے ‘ 2022ء کے مقابلے میں2023ء کے دوران دہشت گردی میں17 فیصد اضافہ ہوا ‘ ناسورکوختم کرنے کے لیے آپریشن باربارکرنا پڑے تو کرناچاہیے‘ اسلام آباد اب پرائی جنگ کا حصہ نہ بننے ‘ملکی معاشی بحالی میں بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے‘افغان حکومت دہشت گردی کودونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ سمجھے۔ان خیالات کا اظہار وزیر دفاع و دفاعی پیداوار خواجہ محمد آصف، قومی سلامتی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر ہما بقائی اور معروف کا لم نگار، تجزیہ کار و صحافی قاضی سمیع اللہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ خواجہ آصف نے کہا کہ دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے اور دنیا کا ہر خطہ اس وقت کسی نہ کسی طور اس خطرے سے نبرد آزما ہے‘ اس حوالے سے ہر ملک کے چیلنجز الگ الگ ہیں مگر اس مذموم کارروائی کے مقاصد پوری دنیا میں یکساں ہیں‘ دفاعی قوت کو کمزور بنانا‘ ترقی کی راہ سے ہٹانا اور عالمی برادری سے تعلقات میں رخنہ ڈالنا ہے‘ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیچھے بھی یہی مذموم مقاصد کارفرما ہیں‘ امسال 18 مارچ کو افغان سرحدی علاقوں کے اندر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائیوں سے پاکستان نے اپنے اسی دیرینہ عزم کا اعادہ کیا کہ اپنے تحفظ و دفاع کی خاطر کسی کارروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا‘ افغان حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے جس سے مل کر ہی نمٹا جا سکتا ہے‘ اس حوالے سے ایک مشترکہ علاقائی نقطہ نظر کی ضرورت ہے‘ دوسری جانب داخلی استحکام کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ سیاستدانوںکو اس نازک موقع پر ہم آہنگی کی سوچ اپنانی چاہیے، خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے‘ دہشت گردی کے بڑھتے خطرات سے اسی وقت نمٹا جا سکتا ہے جب اندرونی سطح پر یکسوئی اور استحکام ہو۔ ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے ضروری ہے اور وفاق و صوبے کے درمیان فرق اسے متاثر کر رہا ہے‘ دہشت گردی جیسے حساس معاملے پر وفاق اور صوبے میں چپقلش سے دشمن عناصر فائدہ اٹھائیں گے‘ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے اور ہم آواز ہونا ضروری ہے بصورت دیگر سیاسی تقسیم کا فائدہ حریف کو حاصل رہے گا‘ جس حالات سے ملک گزر رہا ہے اور روزانہ جوانوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں تو فوج بھی دہشت گردوں سے غیر مشروط بات چیت کی حامی نہیں ہو گی‘ نیشنل ایکشن پلان پر نظرِ ثانی کرنا اچھی حکمتِ عملی ہے کیوں کہ بہت سے ماہرین سمجھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری کی ضرورت ہے‘یہ اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘ اس وقت پاکستان کی حکومت معاشی بحالی کے اقدامات کر رہی ہے جس میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے کیوں کہ دہشت گردوں کا ہدف ملک کی معیشت ہے‘ اگر انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین کے ساتھ مشاورت کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان میں تبدیلیاں لائی جاتی ہیں تو یہ ملک میں قیامِ امن اور معاشی ترقی کے لیے بہت مفید ہو سکتا ہے۔ قاضی سمیع اللہ نے کہا کہ آج ریاست کو اندورنی اور بیرونی دہشت گردی کا سامنا ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومت اور عسکری ادارے2 بڑے آپریشن (آپریشن ضرب عضب، آپریشن رد الفساد) کرچکے ہیں اور تیسرے آپریشن کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں جسے ’’آپریشن عزم استحکام‘‘ کا نام دیا گیا ہے‘ ریاست سیاسی اور معاشی اعتبار سے عدم استحکام کا شکار ہے‘ پاکستان میں دہشت گردی کی لہر اب بھی موجود ہے اس ضمن میں پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی سالانہ رپورٹ 2023ء کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا گیا ہے کہ گزشتہ3 برس کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے‘ 2023ء میں دہشت گردی کے 306 حملوں میں 693 لوگ اپنی جانوں سے گئے اور 1124 افراد زخمی ہوئے۔ 2022ء کے مقابلے میں2023ء میں دہشت گردی کے واقعات میں17 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جانی نقصان 2022ء کے مقابلے میں 65 فیصد زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ گزشتہ سال کے تناسب کے حوالے سے دیکھا جائے تو پنجاب میں دہشت گردی میں100 فیصد اضافہ اور سندھ میں یہ اضافہ87 فیصد ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں3 فیصد ہے مگر دہشت گردانہ حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان میں خیبر پختونخوا سب سے آگے ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آج سے 10 سال پہلے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ ریاست کے خلاف متحرک تھے مگر اب طالبان کے ساتھ داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی کی کارروائیاں نہ صرف یہ کہ مسلسل بڑھ رہی ہیں بلکہ ملک میں82 فیصد حملوں کے ذمہ دار یہ تینوں گروہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے ان واقعات میں سب سے بڑا حصہ مذہبی عسکریت پسندوں کا ہے جن میں تحریک طالبان پاکستان، تحریک جہاد پاکستان، حافظ گل بہادر گروپ داعش خراسان شامل ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال ہونے والے کل 306 حملوں میں سے 208 حملے کیے ہیں جن میں 579 جانیں گئیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے قریب ہے اب یہ تاثر نہ صرف ختم ہو رہا ہے بلکہ دہشت گردی پہلے سے بڑے پیمانے پر ملک کے زیادہ حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے‘ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان کو درپیش چیلنجز میں ایک سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے جس سے ہر صورت نمٹنا ہو گا، اس کے لیے اگر ’’آپریشن عزم استحکام‘‘ کرنا پڑتا ہے تو کیا جائے، ضرورت پڑتی ہے تو بار بار کیا جائے لیکن پاکستان کو دہشت گردی کے ناسور سے ہر صورت پاک کیا جائے اور ساتھ ہی یہ عہد بھی کیا جائے کہ پاکستان آئندہ کسی کی بھی پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔