مہنگائی کے اثرات کے بارے میں مسلسل شکایات کی جارہی ہے ۔موجود صورتحال اس قدر خراب ہیں اس سے قبل کبھی نہیں تھی ہر طرف تنزلی اور افسردگی کا راج ہے ۔ کراچی ہر روزہی ہم کسی نہ کسی نجی ادارے کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ یا تو اپنا کاروبار بند کر نے یا پیداواری سرگرمیاں کم کرنے اور نوکریوں سے چھٹکارا حاصل کر نے کا سوچ رہا ہے جو کہ واقعی مایوس کن اور تشویشناک ہے کیونکہ صنعتوں کی بڑے پیمانے پر بندش معاشی بحرانوں کو مزید بڑھانے کا باعث بنے گی۔
برآمد کنندگان، صنعتکار، چھوٹے تاجر، تنخواہ دار طبقہ، یومیہ اجرت والے اور بہت سے دوسرے طبقات کو سخت ٹیکسیشن اقدامات، ایف بی آر کو دیے گئے بے لگام صوابدیدی اختیارات اور ناقابل برداشت حد تک توانائی نرخوں کی وجہ سے مسلسل شدید مشکلات کو مددنظر رکھتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ نے حکومت سے پرزور اپیل کی کہ ٹیکس کے تمام انتہائی غیر منصفانہ اقدامات پر نظرثانی کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی و گیس نرخوں میں نمایاں کمی کی جائے جن کی وجہ سے چھوٹے کاروباری اداروں اور صنعتوں کی بندش، ملازمین کی چھانٹی اور برآمدات میں کمی کے علاوہ ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے جس میں بڑی تعداد میں چھوٹے تاجر اور صنعتیں دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔ ملک کی موجودہ تشویشناک صورتحال جنگی بنیادوں پرریلیف اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ صنعت کا پہیہ گھومتا رہے بصورت دیگر ہمارا پیارا ملک جو پہلے ہی معاشی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے وہ بدنظمی کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا کیونکہ خالی پیٹ معاشرے کے بے روزگار اور غریب طبقے کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا جو حکومت کے لیے بہت سے دیگر مسائل اور بے لگام چیلنجز کو جنم دے گا۔
فنانس ایکٹ 2024 کے تحت غیر رجسٹرڈ خوردہ فروشوں پر 2.5 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس کے نفاذ کوبازو مروڑنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے پورے ایف ایم سی جی سیکٹر کو ودہولڈنگ ایجنٹس کے کردار میں بدل دیا جائے گا جسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔ایف ایم سی جی سیکٹر کی طرف سے غیر رجسٹرڈ خوردہ فروشوں کو فراہم کردہ تقریباً 60 سے 70 فیصد سامان حکومت کے حالیہ اقدامات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے مینوفیکچررز کو واپس کر دیا گیا ہے جبکہ کے سی سی آئی کے اراکین شکایت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس سے اشیاء کی قیمتوں میںاضافہ ہوگا، فروخت میں کمی آئے گی اور ڈیمانڈ کو تباہ کن دھچکا لگے گا۔
چھوٹے تاجروں کے ساتھ ساتھ صنعتکار پہلے ہی اپنی بقا کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں لیکن گیس اور بجلی کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بالکل ناامید ہوتے جا رہے ہیں لہذا ان نرخوں کو کسی بھی صورت میں معقول بنانا ہوگا۔اگرچہ قانون سازوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً بجلی کے نرخوں میں کمی کی یقین دہانی کرائی جاتی رہی ہے لیکن نرخوں میں کمی کے بجائے بجلی نرخ کو آج تک 18 سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ کی ناقابل برداشت سطح پرپہنچا دیا گیا ہے جبکہ فکسڈ چارجز کو بھی بڑھا کر 1250 روپے کر دیا گیا ہے نیز گیس 3000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے بلند نرخ پر فراہم کی جا رہی ہے۔انہوں نے سوال کیاکہ کیسے کسی چھوٹے تاجر یا صنعتکار کا کاروبار اتنی زیادہ لاگت پر فعال رہے گا جو بنیادی طور پر توانائی کے نرخوں کی وجہ سے
چیف ایگزیکٹیو مونس علوی چھوٹے تاجروں کو درپیش مشکلات باالخصوص کراچی کے پسماندہ علاقوں میں جاری شدید گرمی کے موسم میں بھی جاری لوڈ شیڈنگ کو دور کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔K الیکٹرک چھوٹے تاجروں کی سہولت کے لیے کے سی سی آئی میں ہیلپ ڈیسک قائم کی جائے اور نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ شہر میں گرمی کی لہر کی وجہ سے تقریباً ہر روز لوگ مر رہے ہیں۔
آسمان چھوتی مہنگائی کی وجہ سے کاروبار بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور اس کی وجہ سے صارفین کی قوت خرید تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ان حالات میں ایف بی آر حکام کو دیے گئے بے لگام صوابدیدی اختیارات کی بدولت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچنے والے کئی قسم کے کاروبار مزید خطرے میں پڑ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دستیاب پلیٹ فارمز پر ایسے تمام سخت اور بے جا اقدامات کی سختی سے مخالفت کریں گے کیونکہ انہیں کسی صورت برداشت نہیں کیا
برآمدات کو ایک فیصد ٹرن اوور پر مبنی فائنل ٹیکس ریجیم (ایف ٹی آر) سے منافع کے 29 فیصد پر اسٹینڈڑ ٹیکس کی طرف منتقل کرنا برآمدات کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے جوکہ 50 فیصد سے زیادہ گر جائے گی جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر پر مزید دباؤ پڑے گا۔مزید برآں ایکسپورٹ فنانس سکیم (ای ایف ایس) کے تحت مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس سے برآمدات کے لیے مزید گھٹن کا ماحول پیدا ہو گا۔انہوں نے متنازعہ ایس آر او 350 کی وجہ سے پیدا ہونے والی خراب صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یقین دہانیوں کے باوجود یہ مسئلہ اب تک حل نہیں ہوا جس سے ٹیکس دہندگان میں بے چینی پائی جاتی ہے جو اپنے سیلز ٹیکس ریٹرن جمع کرانے سے قاصر ہیں۔یہاں تک کہ جب یوٹیلیٹی سروس فراہم کرنے والے اپنے سیلز ٹیکس ریٹرن فائل کرنے سے قاصر ہوں گے تو دوسرے کاروبار ایس آر او 350 میں غیر عملی شرائط کی تعمیل کیسے کر سکیں گے۔انہوں نے ایف بی آر پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ایس آر او 350 کے حوالے سے درپیش مسائل کا از سر نو جائزہ لے اور ان کی اصلاح کرے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایس آر او 350کو واپس لینے میں مزید تاخیر کے نتیجے میں گوشت، سمندری خواراک، مچھلی، سبزیاں، پھل، تل اور دیگر بہت سی برآمدات رک جائیں گی۔ جہاں سے یہ تمام اور بہت سی دوسری مصنوعات کو برآمد کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے وہاں رجسٹریشن کا کوئی نظام ہے ہی نہیں۔اس صورتحال میں فائلرز کے لیے سیلز ٹیکس ریٹرن کے لیے رجسٹرڈ افراد کی تفصیلات جمع کرنا ناممکن ہے۔
افتخار شیخ نے مزید کہا کہ اگرچہ شرح سود میں 1.5 فیصد کی کمی کی گئی ہے لیکن اسے مسابقتی ممالک کے برابر لانے کی ضرورت ہے جہاں شرح سود 7 سے 8 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ہمیں مکمل ادراک ہے کہ آئی ایم ایف کی مجبوریاں ہیں لیکن حکومت کو کے سی سی آئی کی مشاورت سے ریلیف کے اقدامات کرنے ہوں گے جو آئی ایم ایف پروگرام کے اندر قابل عمل ہیں۔انہوں نے کہا کہ پریشان حال تاجر، صنعتکار اور برآمد کنندگان یقین دہانیوں اور وعدوں سے تنگ آچکے ہیں۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ زیادہ تر صنعتوں نے بی ایم آرکی سرگرمیوں کو روک دیا ہے۔انہوں نے آئی ایم ایف کے 37 ماہ کے ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسیلٹی (ای ایف ایف) کے تقریباً 7 ارب ڈالر کے انتظامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کا یہ انتظام واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کو سالانہ تقریباً 2.3 ارب ڈالر ملیں گے لیکن آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی وجہ سے ملک کو ہر سال 4 ارب ڈالر سے زیادہ کی برآمدات کا نقصان ہوگا۔ کیا آئی ایم ایف سے جو مل رہا تھا اس سے دگنی قربانی دینا عقلمندی ہے؟برآمدات پر سمجھوتہ کرکے آئی ایم ایف کو خوش کرنا بند کرے۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو اس پہلو کا جائزہ لینا چاہیے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے سے برآمدات کے لحاظ سے کتنا نقصان ہورہا ہے۔اگر آئی ایم ایف کی مجبوریاں صنعتوں کی بندش کا باعث بن رہی ہیں تو حکومت ملک کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے اپنی تمام موجودہ حکمت عملیوں پر سنجیدگی سے غور کرے۔
رکن قومی اسمبلی اور ایف پی سی سی آئی کے سابق سینئر نائب صدر ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے انڈیپنڈنٹ پاور پروجیکٹس (IPPs) کو پاکستان کی معیشت کیلئے فنانشل رسک قرار دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اوور انوائسنگ اور کرپشن میں ملوث آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے اور لوٹی ہوئی رقم وصول کرکے آئی پی پیز کے معاہدے منسوخ کئے جائیں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ 3750 میگاواٹ کے 3 بند بجلی گھروں حب کول، ساہیوال کول اور بن قاسم کو 60 فیصد کیپیسٹی سرچارج کی ادائیگی پر نظرثانی کی جائے اور پرانی شرائط پر آئی پی پیز معاہدے کی تجدید ہرگز نہ کی جائے بلکہ نئے معاہدے مقابلاتی آفر (CTBCM) پر کئے جائیں جسے نیپرا نے 2020 میں منظور کیا تھا۔
ملک کی مجموعی بجلی کی پیداوار 42,000 میگاواٹ ہے جس میں سے آدھی 21,000 میگاواٹ آئی پی پیز سے خریدی جاتی ہے۔ ڈاکٹر بیگ نے کہا کہ بجلی کی اضافی پیداوار کے بجائے بجلی کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کو جدید بنایا جائے تاکہ اس سے اضافی بجلی حاصل کی جاسکے کیونکہ موجودہ سسٹم 22000 میگا واٹ سے زیادہ بجلی سپلائی نہیں کرسکتا۔