عزم استحکام: ایک آپریشن اور سہی

229

پاکستان میں آج اسٹیبلشمنٹ کے اندروںوہ یکجہتی اور ہم آہنگی دکھائی نہیں دیتی جو دس پندرہ برس پہلے اس کا خاصہ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی تضاد شدید بھی ہوگئے ہیں اور عریاں بھی۔ عدلیہ کے ساتھ اس کی محاذ آرائی بھی سب کے سامنے ہے جس میں اب تک عدلیہ کا ہی پلہ بھاری نظر آرہا ہے۔ پی ٹی آئی کو مٹانے اور دبانے کی اس کی ہر کوشش کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے ملک گیر سطح پر نئے سیاسی رحجانات جنم لے رہے ہیں۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو ایسی قوت نہیں سمجھا جاتا جس سے محاذ آرائی کا تصور بھی نہ کیا جاسکتا ہو۔ آپریشن عزم استحکام پر اب پارلیمان کا رویہ اور سیاسی جماعتوں کی آراء کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
اگرچہ ملک میں فوجی حکومت نہیں ہے اس کے باوجود مہنگائی سے لے کر بے روزگاری تک تمام مسائل کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو سمجھا جاتا ہے۔ جرنیلوں کا شاہانہ طرز زندگی، اندرون وبیرون ملک ان کے محلات، کاروبار، عیش وعشرت کے وسائل، دولت کی ریل پیل، بھاری تنخواہیں اور پنشنیں آج ہر سطح پر عوام میں زیر بحث ہیں۔ بجٹ کے اعلان کے موقع پر فوج کو مختص رقوم کا ذکر اس انداز سے کیا جاتا ہے جیسے یہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہو۔ عوامی سطح پر فوج کا امیج جتنا آج متنازع ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ فوج کے لیے عوامی حمایت اب چراغ اور رخ زیبا کی ڈھونڈ جیسا معاملہ ہوکر رہ گیا ہے۔ جائز ناجائز اب فوج کے ہر فیصلے پر طعنہ زنی عوام کا معمول ہے۔ ایسے میں ایک فوجی آپریشن کی عوامی حمایت ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔
خیبر پختون خوا میں آپریشن عزم استحکام پر جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ بہت منفی ہے۔ جرگے منعقد کیے جارہے ہیں جن میں آپریشن کی مذمت کی جارہی ہے۔ لوگ کسی بھی صورت آپریشن ضرب عصب کی تاریخ دہراتے ہوئے دربدر ہونے پر تیار نہیں۔ جرگوں میں ایسے افراد پر بھاری جرمانے عائد کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے جو نقل مکانی میں حکومت سے تعاون کریں گے۔
سیاسی پارٹیاں بھی اس معاملے میں پختون خوا کے عوام کے دم قدم ہیں حالانکہ ماضی میں یہی سیاسی پارٹیاں ہر آپریشن کی حمایت کرتی آئی تھیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ کا بھرم نہ صرف برقرار تھا بلکہ پورے زوروں پر بھی تھا۔ سیاسی پارٹیاں آج اپنی سیاسی دکانوں کا قیام ودوام اسی صورت میں دیکھ رہی ہیں جب وہ عوامی شعور کے ساتھ ہم آہنگ ہوں جو کہ آج کل اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے۔ ان میں سے کچھ سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو آج اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرے لگانے میں آگے آگے ہیں تاکہ عوام کی نظر میں سرخرو رہیں لیکن نہیں معلوم کب وفاداری بشرط استواری کے تقاضے نبھاتے ہوئے دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کے تھان پر ہنہنانے لگیں۔
مہنگائی بے روزگاری بجلی کے بل اور لوگوں کے مالی دیوالیہ پن کو ختم کرنا تو درکنار ان مسائل کو کم کرنے میں حکومت اور ریاست جس طرح ناکام ہوئی ہیں، جس طرح وہ ہر طوفان بلا کا رخ عوام کی طرف موڑ رہی ہیں، اس کے بعد ریاستی جبر کی کسی بھی صورت کو خواہ وہ کتنا ہی فائدے مند اور ناگزیر ہو عوام برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ اس کی افادیت کے کسی بھی پہلو کو تسلیم کرکے اس کے لیے قربانی دینے پر تیار ہیں۔
آج عوام کو حکومت ریاست اور اس کے اداروں کی کسی بھی بات پر رتی بھر بھروسا نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ریاست اس کے اداروں اور کسی بھی سیاسی قوت کے پاس ان کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ ایسے میں کسی بھی حل، کسی بھی آپریشن کو کتنا ہی ناگزیر باور کرایا جائے عوام اس کی حمایت کرنے پر آمادہ نہیں۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کی آڑ میں جو عوام دشمن پالیسیاں نافذ کی جارہی ہیں جن سے صرف عوام اور نچلے متوسط طبقے کچلے جارہے ہیں، بالائی اور حکمران طبقات کے اللے تللوں، اسراف اور شاہانہ طرز زندگی پر جس سے کوئی زد نہیں پڑ رہی پورا پاکستان اور اس کے عوام اس سے ہمہ جہت بے چینی میں مبتلا ہیں۔ اس صورت میں کون سی چنگاری کب شعلہ جوالہ بن جائے کچھ خبر نہیں۔
اس وقت خیبر پختون خوا میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور زائد بلوں کے معاملے پر جو عوامی غم وغصہ انتہا پر ہے ایسے میں کوئی نیا آپریشن جو ان کی زندگی میں مزید غم اور پریشانیاں گھول دے عوام کی برداشت سے باہر ہے۔ موجودہ آپریشن عزم استحکام پچھلے آپریشنوں سے کس طرح مختلف ہوگا یہ ایک ایسا سوال ہے جس کو تفصیل سے سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ ایک ایسے ملک میں جس کی یکجہتی پہلے ہی پارہ پارہ ہے عوام حکومت ریاست اور اس کے اداروں سے بری طرح نفرت کررہے ہیں عوامی تائید سے محروم ایک آپریشن سے کیا فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔
آپریشن عزم استحکام کی بڑی ضرورت چین سے سرمایہ کاری کا حصول ہے جسے سیکورٹی کی صورتحال ٹھیس پہنچا رہی ہے۔ چینی انسٹالیشنز اور ان کے آفیشلز پر حملے بلوچ شدت پسندوں کی طرف سے کیے جارہے۔ ان کے خلاف ویسے بھی مختلف آپریشن جاری رہتے ہیں کیا یہ زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ ایک نئے آپریشن کو لانچ کرنے کے بجائے پرانے آپریشنز میں ہی شدت اور حدت لاکر اس نئی صورتحال کا مقابلہ کیا جاسکتا۔ کہیں ایسا تو نہیں آپریشن عزم استحکام چین کو ہمارے دہشت گردی کے معاملات میں شامل کرنے اور چین سے سرمایہ کے حصول کی کوشش ہو جیسا کہ بعض حلقوں کی طرف سے کہا جارہا ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کی سب سے مضبوط نظریاتی اساس اور خطے میں سب سے قریب نظریاتی قوت طالبان کے افغانستان میں برسراقتدار آنے کے بعد بھی کابل میں ایک پاکستان دوست حکومت تشکیل نہ پاسکی، امن قائم نہ ہوسکا بلکہ قتل وغارت کے سلسلے ویسے ہی جاری ہیں، یہ اتنا بڑا کیوں ہے جس کا جواب ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ پر نہ صرف لازم ہے بلکہ ان کی معاملات کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت پر بھی ایک بڑا داغ ہے۔ 2022 میں ٹی ٹی پی نے جس طرح ریاست پاکستان سے سیز فائز کا معاہدہ ختم کیا اور اس کے بعد جس طرح حملے شروع کیے اس میں افغان حکومت کی آشیر باد اور تائید کا کتنا دخل تھا آخر ان معاملات پر کھل کر قوم کو کیوں آگاہ نہیں کیا جاتا؟