چین کہاں کھڑا ہے؟

331

امریکا اور یورپ دونوں ہی چین سے بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ کم و بیش چار عشروں کی شبانہ روز محنت کا پھل اب چین کو مل چکا ہے۔ وہ ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہا ہے۔ فطری علوم و فنون کے میدان میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ یہ سمجھا کرتے تھے کہ چین آبادی کی بنیاد پر اپنی برتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ اور کنزیومر مارکیٹ کے ذریعے عالمی تجارت کو مسخر کرے گا۔ ایسا ہوا بھی مگر معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا ہے۔ چین نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہر شعبے میں اپنے آپ کو منواسکتا ہے۔ مشرقِ بعید کے متعدد ممالک میں چینی نسل کے لوگ خاصی مستحکم معاشی حیثیت کے حامل ہیں۔ وہ معیشتوں کا رُخ متعین کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ چینی نسل کے باشندوں سے ہٹ کر بھی چینی شہریت رکھنے والے ایک کروڑ سے زائد افراد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنے ملک کی معاشی و معاشرتی شناخت کے لیے تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں۔ چین اب فطری علوم و فنون میں تحقیق کے حوالے سے بھی نمایاں پیش رفت کا حامل ہے۔ ماہرین اُسے ندرت و جدت کا پاور ہاؤس قرار دے رہے ہیں۔ وہ بہت تیزی سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا پر اپنی چھاپ گہری کرتا جارہا ہے۔ آئیے، اس حوالے سے چند حقائق کا جائزہ لیں۔
2023 کے گلوبل انوویشن انڈیکس میں چین 132 معیشتوں میں بارہویں نمبر پر آیا۔ اَپر مڈل انکم والے گروپ کی 33 معیشتوں میں چین کا نمبر پہلا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی ایشیا اور اوشیانا کی 16 معیشتوں میں اُس کا تیسرا نمبر ہے۔ چینی معاشرے میں مڈل کلاس لیول کی آمدنی والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہو رہا ہے اور دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقلِ مکانی کرنے والوں کو بھی معیاری انداز سے جینا نصیب ہو رہا ہے۔ چینی معاشرے میں انفرادی سطح پر آمدنی کے گراف کا بلند ہوتے جانا انتہائی خوش آئند امر ہے۔
چین نے فطری علوم و فنون کے حوالے سے تحقیق و ترقی پر بہت زیادہ خرچ کرنا شروع کردیا ہے۔ مغربی اقوام نے اِس شعبے پر خاص توجہ دے کر بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ چین نے بھی سمجھ اور سیکھ لیا ہے کہ اپنی برتری برقرار رکھی ہے تو تحقیق و ترقی کے شعبے کو نظر انداز کرنے کا رسک نہیں لیا جاسکتا۔ 2000 کے بعد سے اب تک چین میں تحقیق و ترقی کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈز میں 1600 فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔ خیر، امریکا اور یورپ سے چین اب بھی پیچھے ہے۔ 2021 کو بنیادی سال قرار دے کر جائزہ لیا جائے تو امریکا نے مجموعی طور پر تحقیق و ترقی کی مد میں 806 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں جبکہ چین اب تک 668 ارب ڈالر کی منزل تک پہنچ پایا ہے۔ چین نے ٹیکنالوجی میں واضح پیش رفت یقینی بنانے پر بھی خوب توجہ دی ہے۔ عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لینے والے اداروں کے انڈیکس بتاتے ہیں کہ 44 سے میں 37 ٹیکنالوجیز میں چین آگے ہے۔ اِن ٹیکنالوجیز کا تعلق دفاع، خلائی تحقیق، روبوٹکس، توانائی، ماحول، بایو ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، ایڈوانسڈ مٹیریل اور کوانٹم فزکس کے عملی پہلوؤں سے ہے۔ فی زمانہ آگے بڑھنے کے لیے اِن تمام شعبوں میں ٹیکنالوجیکل برتری لازم ہے۔ چین اس حوالے سے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ کوئی کسر رہ جائے گی تو حریف بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔
اعلیٰ درجے کے تحقیقی مقالوں کی دوڑ میں بھی چین بہت تیزی سے اپنے آپ کو منوارہا ہے۔ 2003 میں امریکا نے چین کے مقابلے میں 2000 فی صد زائد تحقیقی مقالے شائع کیے۔ 2013 تک امریکا کی یہ برتری 400 فی صد تک رہ گئی۔ اعلیٰ سطح کے تحقیقی مقالوں کے میدان میں چین نے 2022 میں امریکا اور یورپی یونین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ چین میں مختلف کلیدی شعبوں کے ماہرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ماہرین صنعت و حرفت کے علاوہ ڈجیٹل ماحول کی بھرپور ترقی میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بیرونِ ملک بھی اِن ماہرین کی طلب غیر معمولی ہے۔
فطری علوم و فنون کے شعبوں میں وسیع البنیاد ترقی کے چینی منصوبے کا اہم حصہ ہے عالمی معیار کی جامعات کا قیام۔ چین اس شعبے میں بھی اپنی مہارت منواتا جارہا ہے۔ چینی جامعات کا معیار بلند کرنے کے لیے غیر معمولی تنخواہیں اور بونس دینے کا سلسلہ جاری ہے تاکہ بہترین قابلیت والے اساتذہ کی خدمات سے استفادہ ممکن ہوسکے۔ دنیا بھر میں اعلیٰ تحقیق پر مبنی مقالے شائع کرنے والے جرائد میں شائع ہونے والے اساتذہ اور محققین کو سالانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر تک مشاہرہ دیا جاتا ہے۔
جو چینی سائنس دان ملک سے باہر خدمات انجام دے رہے ہیں اُنہیں وطن واپسی کی تحریک بھی دی جارہی ہے تاکہ اُن کی صلاحیتیں ملک و قوم کے کام آسکیں۔ ’’یوتھ تھاؤزنڈ ٹیلینٹس‘‘ کے زیرِ عنوان چلائے جانے والے پروگرام کے تحت 40 سال سے کم عمر کے چینی ماہرین کو وطن واپسی کے لیے صرف ایک بار ڈیڑھ لاکھ ڈالر تک کے بونس کی پیشکش کی جاتی ہے۔ چین میں اعلیٰ ترین سطح کے مصنوعی ذہانت کے تربیت یافتہ ماہرین اور محققین کی تعداد امریکا کے مقابلے میں 250 فی صد زیادہ ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2025 تک چینی جامعات سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد امریکی جامعات کے مقابلے میں کم و بیش دُگنی ہوچکی ہوگی۔
(بہ شکریہ : دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام)