کراچی( کامرس رپورٹر) ایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ اور نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی پی پیز ملکی خزانہ چوس رہے ہیں، کاروبار بندش کے شکار ہے اور بجلی کے موجودہ نرخوں پر کاروبار کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا کہ آئی پی پیز کو سالانہ دو ہزار ارب روپے کپیسٹی چارجز کے نام پر ادا کیے جا رہے ہیں لیکن بند کارخانوں سے بجلی بنا کر صنعتوں کو سستے داموں نہیں دی جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ صنعتوں کو 25 روپے یا 9 سینٹ فی یونٹ بجلی دینے سے ملکی برآمدات میں 6 ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہے، دوسری صورت میں سال رواں کے دوران ریکارڈ تعداد میں کاروبار بند ہوجائیں گے کیونکہ 60 روپے فی یونٹ بجلی خریدنا ناممکن ہے اور اس سے حکومت کے محصولات اور عوام کا روزگار متاثر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بجلی اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی فوری ضرورت ہے، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی اور آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ ہونا بھی ضروری ہے، بجلی، بجٹ اور ٹیکس کے نظام سمیت بہت سے اہم امور میں مافیاز کا عمل دخل بہت زیادہ ہے جو اپنے مفاد کے خلاف کسی کام کو چلنے نہیں دیتے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ ایف بی آرکا نظام اعلانات کے ذریعے بہتر نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے لوگوں کو میرٹ پر تعینات کرنا ہوگا، معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے ڈیجیٹل نظام لانا ہوگا اور شفافیت کو ترجیح دینا ہوگی لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس سلسلہ میں فی الحال کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر اصلاحات کے ساتھ ٹیکس ڈھانچے میں تبدیلی اور ٹیکس اصلاحات بھی ضروری ہیں، ٹیکس نیٹ میں وسعت کی کوششوں کو کامیاب کرنے کے لیے معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنا ہوگا جس سے ٹیکس بیس میں اضافہ ہوگا، کرپشن کم اور شفافیت پیدا ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ جب بھی زرعی آمدنی پرٹیکس لگانے کی سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے تو جاگیردار اشرافیہ اپنی تمام سیاسی لڑائیاں ختم کرکے متحد ہوجاتی ہے۔میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ اس وقت ملک دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑا ہے اور آئی ایم ایف ہی اسے بچا رہا ہے۔ ملک کوچلانے کے لئے تنخواہ دارطبقے پرٹیکس لگایا جاتا ہے مگر با اثر شعبوں پرٹیکس نہیں لگایا جاتا جس سے خدشہ ہے کہ موجودہ مالی سال میں بھی ٹیکس کا ہدف پورا نہیں ہوگا، ٹیکس ٹوجی ڈی پی کا تناسب کم رہے گا اور ٹیکس ادا کرنے والوں پربوجھ بڑھتا رہے گا، جس سے معیشت پر سنگین اثرات پڑیں گے اور ملک میں غربت مزید بڑھے گی۔