اے ابن آدم آج کے معاشرے کو دیکھ کر دل روتا ہے، بلب سے لے کر ایل ای ڈی تک کا دور میں نے دیکھا اور ناجانے ابھی کیا کیا دیکھنا باقی ہے۔ قارئین جو میرا کالم پڑھتے ہیں، رابطہ کرتے ہیں، پسند کرتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے، کالم نگار اور ممتاز سیاسی و سماجی شخصیت طارق شاداب بھائی جو نہایت قابل قدر اور محبت کرنے والے انسان ہیں، میرے بڑے بھائی جو مجھ سے 19 سال بڑے تھے باپ کی جگہ تھے ہمایوں صغیر خان آپ 28 جون 2024ء کو رضا الٰہی سے انتقال کر گئے، بے شمار دوستوں نے اظہار تعزیت کیا، میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ سندھ یونین آف جرنلسٹ کے مرکزی دفتر میں بھی ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا گیا۔ ہومیوپیتھک برادری نے بھی اظہار تعزیت کیا۔ خیر بھائی طارق شاداب نے کہا کہ یار تم اتنا کچھ لکھتے ہو، تھوڑا پرانے معاشرے اور اقدار کے حوالے سے لکھوں تا کہ نئی نسل کو پتا چلے کے 30 سے 40 سال پہلے کنبہ کیسا ہوتا تھا، بزرگوں کا، والدین کا کیا مقام ہوتا تھا، شادی بیاہ اور موت پر اہل محلہ کا کیا کردار ہوتا تھا۔ خاندانوں میں کتنی محبتیں ہوتی تھیں جو آج ہمارے معاشرے میں نظر نہیں۔ میرے والد و دادا کا تعلق علی گڑھ سے تھا والدہ کا تعلق میرٹھ سے تھا پاکستان بننے کے بعد والد صاحب کچھ عرصے جہانگیر آباد رہے پھر مارٹن کوارٹرز کے سرکاری کوارٹر میں آگئے مجھے والد صاحب نے گرین ووڈ اسکول میں داخل کروا دیا جہاں سے میں 1981ء میں میٹرک کرکے نکلا میرے والد کے 3 بھائی، 2 بہنیں تھے، ایک تایا جان، دو چچا اور دادا نے ہجرت نہیں کی صرف دادی جان ہجرت کرکے آگئی تھیں ان سب بہن اور بھائیوں میں بے حد محبت تھی ایک دوسرے میں جان تھی۔
ہمارے محلے میں سب ایک گھر کی طرح رہتے تھے۔ شیعہ اور سنی بھائیوں کی طرح رہتے تھے، محلے میں بڑے بڑے سرکاری افسران رہتے تھے مگر جب وہ محلے میں ہوتے تو لگتا نہیں تھا کہ یہ 19 گریڈ کے افسر ہیں۔ حسن عباس زیدی، میرے والد، اسلام الدین بھائی کے والد، طارق کے والد علاقے کے بڑے مانے جاتے تھے۔ علاقے کے تمام مسائل کے حل کے لیے ان سے رابطہ کیا جاتا تھا، عبداللہ پاپا اور فلم اسٹار جاوید شیخ کے والد شیخ صاحب بے حد اچھے دوست تھے، روز شام کو گرومندر کے قریب ان کی بیٹھک ہوتی تھی سال میں 2 مرتبہ یہ بزرگ محلے کے تمام بچوں کو لے کر پکنک پر جاتے سارا خرچہ محلے کے بزرگ کرتے تھے کسی کا بچہ بیمار ہوجاتا تو پورا محلہ اس کے گھر آجاتا، مجھے یاد ہے جب میری دادی کا انتقال ہوا تو میں کافی چھوٹا تھا، پورے محلے کے نوجوان ہمارے گھر اور گھر کے باہر کے انتظامات دیکھ رہے تھے، میر حفاظت حسین رضوی، سمیع بھائی مرحوم موت ہو یا خوشی سب میں آگے نظر آتے، مردے کو غسل دینا، کفن دینا، قبرستان کے انتظامات سب یہ لوگ کرتے تھے، سوئم تک ہر گھر سے ناشتہ دوپہر کا اور رات کا کھانا آتا تھا اس زمانے میں پورے محلے میں ایک یا دو ٹی وی ہوتے تھے جس گھر میں موت ہوتی تو سوئم تک علاقے کے لوگ سوگ میں نہ ٹی وی چلاتے نہ ہی ریڈیو چلاتے، جس کے گھر میت ہوتی تو وہ محلے کے بزرگوں سے اخراجات معلوم کرتا اگر دینے کی پوزیشن میں ہوتا تو محلے کے بزرگ میت کے اخراجات لے لیتے اور اگر وہ غریب ہوتا تو اس سے ایک روپیہ نہیں لیا جاتا۔ زبانی رشتے بنا کر ان کا سگے رشتوں کی طرح احترام کیا جاتا۔
میرے بڑے بھائی کی 1977ء میں شادی ہوئی، میرے دو ماموں انڈیا میں تھے، والدہ کی صرف ایک بہن پاکستان آئی تھی، باقی سب انڈیا میں تھے، میری ماں نے زیدی صاحب کی بیوی سے کہا میرے بھائی باقی سب انڈیا میں تھے میرے بھائی ہوتے تو اس خوشی کے موقع پر بہن اور بہنوئی کے لیے اور بچوں کے لیے جوڑے لے کر آتے، زیدی صاحب نے میری ماں کی خواہش بتائی تو انہوں نے کہا میں بھی حمیدہ کا بڑا بھائی ہوں اس کی خوشی میری خوشی ہے مہندی والے دن زیدی صاحب پوری بھات لے کر ہمارے گھر آئے سب کے جوڑے مٹھائی کے ساتھ پھر میری والدہ کے سر پر دوپٹا ڈال کر کہا کہ میں بھی تو بھائی ہوں۔ شادی سے 15 دن پہلے گھر میں ڈھول آجاتا تھا محلے کی لڑکیاں رات کو ہمارے گھر آجاتی اور رات دیر تک شادی بیاہ کے گانے گائے جاتے دولہا کا کمرہ محلے کے لڑکے سجاتے پھر سب بارات کے ساتھ جاتے لڑکی والوں کے گھر کے قریب پہنچ کر ناچتے ایسا لگتا تھا کہ یہ شادی میرے بڑے بھائی کی نہیں بلکہ ان کے بڑے بھائی کی ہے۔ عید اور بقر عید پر بھی اہل محلہ محبت کا ایک عملی نمونہ ہوتے۔ کبھی سارے بزرگ برنی صاحب کے تو کبھی زیدی صاحب کے گھر پر جمع ہوتے چائے پیتے کھانا کھاتے اور محلے کے مسائل پر مشورے ہوتے، مجال ہے کہ کوئی نوجوان محلے کے بزرگ کے سامنے سگریٹ پی لے۔ میں نے میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا، اس زمانے میں اے پی ایم ایس او نئی نئی آئی تھی لڑکے سگریٹ پیتے تو میں بھی ان کا ساتھ دے دیتا، ایک دن کالج سے نکل کر سگریٹ پیتا ہوا گھر آرہا تھا کہ راستے میں میرے بڑے بھائی کے دوست نے دیکھ لیا، میری تو حالت خراب ہوگئی۔ انہوں نے آکر کہا برخوردار گھر تو چلو تمہارے والد صاحب کو بتائو گا کہ شجاع نے سگریٹ شروع کردی ہے۔ میں ہاتھ جوڑ کر بڑے بھائی کے دوست سے رو رو کر معافی مانگ رہا تھا کہ اللہ کا واسطہ آپ بابوجی کو شکایت نہیں کرنا میں دوبارہ سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگائوں گا تو انہوں نے مجھے معاف کیا مگر آج وہ سب ختم ہوچکا ہے۔
ہمارے دور میں استاد کے آگے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کیونکہ استاد ایماندار تھے معاشرے میں ایماندار لوگوں کی بڑی تعداد تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا برکتیں ختم ہونا شروع ہوگئی پہلے ایک ایماندار باپ 10 بچے پالتا آج کا حرام خور، راشی باپ 2 بچوں کی تربیت نہیں کرسکتا۔ آج کسی کا انتقال ہوجائے تو پہلا سوال جنازہ کب اٹھے گا، نماز جنازہ ادا کرکے آدھے تو واپس چلے جاتے ہیں، قبرستان 30 سے 40 لوگ ہی جاتے ہیں۔ میں نے تو ایسا جنازہ بھی دیکھا جس میں صرف 8 لوگ تھے، سوئم کو قورمہ، بریانی کھانے سارا خاندان آجاتا ہے، مرنے والے کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے کے بجائے خاندانی و سیاسی مسائل گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ استاد نے اپنے ہاتھوں سے اپنی عزت گنوا دی ہے، اسکولوں اور کالجوں میں نہ تعلیم رہی نہ تربیت نوجوان ماں باپ کے سامنے سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے ہیں۔ 5 افراد کما رہے ہیں مگر برکت پھر بھی نہیں ہے فجر میں سوتے ہیں تو برکت کہاں سے ہوگی، بیٹا باپ اور ماں سے بدتمیزی کرتا نظر آتا ہے، میں نے تو ایسے بدبخت بھی دیکھے ہیں جو والدین پر ہاتھ اٹھاتے ہیں بڑے بڑے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی کوئی اخلاقی تربیت نہیں ہورہی ہے، ہر طرح کا نشہ عام ہے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کم نشہ زیادہ ہورہا ہے۔ والدین نے بھی اولادوں کی تربیت کا ٹھیکہ اسکول والوں کے حوالے کردیا ہے۔ جہاں سال میں 50 دن تو کوئی نہ کوئی ڈے منایا جاتا ہے والدین کا خرچہ کرایا جاتا ہے آج بھی اگر ہم اللہ اور رسولؐ کے دین کی طرف نہیں پلٹے تو ہر گھر سے ناچ گانے کی آوازیں آئیں گی اور تباہی ہمارا مقدر بن جائے گی یہ ہے آواز ابن آدم۔