2014 میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی آپریشن ’’ضرب عصب‘‘ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں شروع کیا گیا جس میں ایک ہفتہ سے بھی کم وقت کے دوران تقریباً 25لاکھ افراد کو پشاور، بنوں اور خیبر پختون خوا کے دیگر علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔ اس آپریشن کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں کمی آئی۔ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے مبینہ سربراہ حافظ گل بہادر نے حکومت کے ساتھ ستمبر 2006 اور نومبر 2013 میں ہونے والے معاہدوں کو اپریل 2014 کے آخر میں توڑنے جب کہ حکومتی املاک اور سیکورٹی فورسز پر حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تو حکومت نے اس کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے صلاح مشورے شروع کیے۔ حکومت کی منظوری کے بعد 15 جون 2014 سے باقاعدہ طور پر عسکریت پسندوں کیخلاف ’’ضربِ عصب‘‘ کے نام سے فوجی کارروائی شروع کی گئی۔ جو 2017 تک جاری رہی۔ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندی 2005 میں اُس وقت شروع ہوئی جب افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کی کارروائیوں کے بعد افغان اور غیر ملکی عسکریت پسند ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ سکونت اختیار کرنے سرحد پار اس علاقے میں پہنچے۔ ان غیر ملکی عسکریت پسندوں میں القاعدہ سے منسلک عرب جنگجوؤں کے علاوہ وسط ایشیائی ممالک بالخصوص ازبکستان، قازقستان اور چین کے اویغور انتہا پسند شامل تھے۔ آپریشن ضرب عصب کے دوران ہی 16دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول کا واقعہ پیش آیا جس میں 138 بچوں سمیت 150 افراد شہید ہوئے۔
2016 میں جنرل باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی تو فروری 2017 میں آپریشن ردالفساد کے نام سے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن شروع ہوا جس کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔ اس آپریشن کے بڑے اہداف میں ملک کے مختلف علاقوں میں قائم شدت پسندوں کے ’’سلپر سیلز‘‘ اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا تھا۔ اس آپریشن میں بیش تر کارروائیاں انٹیلی جنس معلومات کے تحت کی گئیں جن کا دائرہ فاٹا اور خیبر پختون خوا سے لے کر کراچی، بلوچستان اور پنجاب تک پھیلا دیا گیا۔ اس آپریشن کا ایک مقصد سرحد کی سیکورٹی بھی یقینی بنانا تھا۔ ان فوجی آپریشنوں کے علاوہ بھی ملک بھر میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ درجنوں آپریشن اور بھی کیے گئے۔
امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان میں سکون کا سانس لیا گیا لیکن یہ سکون دیرپا ثابت نہ ہوسکا۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو تقریباً تین برس ہونے کو آرہے ہیں ٹی ٹی پی کے جنگجو وہاں آزادانہ پاکستان مخالف کارروائیوں میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں 2023 میں پاکستان سیکورٹی فورسز کے پانچ سو سے زائد اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ رواں سال 2024 کے ابتدائی چھے ماہ میں ڈھائی سو سے زائد سیکورٹی اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ دہشت گردوں نے نئی ٹیکنیک یہ اختیار کی ہے کہ پبلک مقامات کے بجائے اب وہ براہ راست فوجی جوانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ کئی ماہ سے چا ئنیز انسٹالیشنز پر حملے کیے جارہے ہیں جن میں چینی انجینئرز اور شہریوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ داسوڈیم کے واقعات کے بعد چینی سرمایہ داروں اور چینی حکومت کی طرف سے ان واقعات پر نہ صرف شدید ناراضی کا اظہار کیا گیا بلکہ حکومت پاکستان پر زور ڈالا گیا کہ وہ چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے فوجی آپریشن کرے۔ آپریشن عزم استحکام کے آغاز کا یہی پس منظر ہے۔
آپریشن عزم استحکام کے اعلان کے بعد جیسے ہی چاروں طرف سے اس پر تنقید شروع ہوئی وزیراعظم ہائوس کی جانب سے اس کی وضاحت کی گئی کہ اوّل: یہ بڑے پیمانے پر مسلح آپریشن نہیں ہوگا جس کی وجہ سے لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑے۔ یاد رہے آپریشن ضرب عصب کے نتیجے میں جو نقل مکانی ہوئی تھی چھے برس پورے ہونے کے باوجود اس کے پندرہ ہزار خاندان اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکے تھے۔ دوم: آپریشن کا آغاز پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔ سوم: آپریشن انٹیلی جنس بیسڈ ہوگا یعنی خفیہ معلومات کی روشنی میں کیا جائے گا۔
تحریک طالبان پاکستان کا عالم یہ ہے وہ افغانستان اور پختون خوا دونوں میں موجود ہے اور پاکستان میں مسلسل کارروائیاں کررہی ہے۔ پاکستان کے ریاستی سیکورٹی ادارے مستقل اس کا ٹارگٹ ہیں۔ پاکستان اور افغان حکومت کے دگر گوں اور خراب تعلقات کی وجہ بھی ٹی ٹی پی ہے۔ پاکستان افغان حکومت سے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے، دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کے لیے افغان حکومت پر زور دیتا رہا ہے جب کہ دوسری طرف یہی پاکستان عالمی سطح پر افغان حکومت کو تسلیم کروانے کے پلڑے میں اپنا بھرپور وزن بھی ڈالتا رہتا ہے۔ پاکستان میں اندرونی طور پر یہ حال ہے کہ افغان مہاجرین کو ملک میں بدامنی، دہشت گردی، اسمگلنگ، منشیات اور اسلحے کے پھیلائو، اغواکی وارداتوں کا ذمے دار، ملک پر بوجھ اور دہشت گرد بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پچھلے سال سے ان کی جبری بے دخلی بھی جاری ہے۔
آپریشن عزم استحکام کا اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا زوال اپنے زوروں پر ہے دوسری طرف ریاست پاکستان جس خستگی اور ابتر صورتحال سے دوچار ہے، امریکا سے اس کے کمزور پڑتے تعلقات اور شہباز حکومت اندرون ملک جس طرح عوامی حما یت کھوتی جارہی ہے اس کے بعد ممکن ہے آپریشن عزم استحکام اس طاقت اور جوش وخروش سے بروئے کار نہ آسکے اعلان کی گرما گرمی میں جس کی توقع ہے۔ اس بات میں شاید ہی کسی کو تردد ہو کہ یہ آپریشن چین کی خواہش اور دبائو کے نتیجے میں لانچ کیا گیا ہے لہٰذا اس آپریشن کا مالی بوجھ اٹھانے میں چین اسپانسر کرے گا۔ چین نے ابھی تک کسی ایسے امکان کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ اسے رد ہی کیا ہے۔ دوسری طرف آج بھی امریکا پاکستان کے حکمرانوں کی اولین ترجیح ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی اور پاکستانی فوجیوں کی مشترکہ مشقیں دیکھنے میں آئیں۔ امریکا میں پاکستانی سفیر نے باقاعدہ طور پر امریکا سے آپریشن عزم استحکام میں مدد کے لیے چھوٹے ہتھیاروںکی فراہمی کی درخواست کی ہے۔
چین پاکستان کو بھاری شرح سود پر قرض دے سکتا ہے، قرض کی فراہمی کی مدت میں اضافہ کرسکتا ہے لیکن کبھی اتنے بڑے پیمانے پر امداد نہیں دے سکتا جتنا مختلف ادوار میں امریکا پاکستان کو دیتا رہا ہے۔ لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ آپریشن عزم استحکام میں امریکا مداخلت نہ کرے اور حکومت پاکستان کو احکامات صادر نہ کرے جب کہ وہ افغانستان کی حکومت کو بھی غیر مستحکم کرنا اور وہاں اپنے اثر رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے۔ پاکستان میں امریکا کے خلاف لاکھ نفرت پائی جاتی ہو، امریکا کو پاکستان کے مسائل کا ذمے دار سمجھا جاتا ہو لیکن پاکستان کے حکمران آج بھی امریکا کے غلام ہیں اور اس غلامی کے طوق کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ان کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں آج بھی امریکا کے ہاتھ میں ہیں۔ ناممکن ہے کہ وہ خطہ میں امریکی مفادات کے حصول کے سلسلے میں امریکی احکامات کی بجاآوری سے انکار کرسکیں۔ (جاری ہے)