اسرائیلی میڈیا کی ویڈیو رپورٹ کے مطابق یہودی نیشنل سیکورٹی وزیر اتمار بین گویر نے سخت حفاظتی حصار میں محافظوں کے ساتھ ’’بیت المقدس‘‘ کے صحن میں ایک ویڈیو بنا کر دنیا بھر کے 2 ارب مسلمانوں کو دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے یہودی قیدیوں کو فوری رہا نہ کیا تو ’’بیت المقدس‘‘ کی پوری عمارت کو زمین سے ملا دیا جائے گا اور فلسطینیوںکی پوری نسل کو ختم کر کے مٹی میں دفن کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد اسرائیلی پارلیمنٹ (کینسیٹ) نے فلسطینی ریاست کے قیام بائیڈن پلان کو مسترد کردیا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے 2ریاستی منصوبے کے خلاف اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ نے ایسی قرارداد منظور کی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق قرارداد میں فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف 68 اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ دیا جب کہ 9 اراکین نے قرار داد کی مخالفت کی، اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائرلپید کی پارٹی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ کینسیٹ کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کے وجود اور اسرائیلی شہریوں کے لیے خطرناک ہے۔
اسرائیل نیشنل سیکورٹی وزیر اتمار بین گویر اور سموترچ نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر نیتن یاہو نے حماس کے مکمل خاتمے سے قبل جنگ بندی پر اتفاق کیا تو وہ حکومت گرا دیں گے۔ ان دونوں کا شمار انتہا پسند یہودی قوم پرستوں میں کیا جاتا ہے جن کی خواہش ہے کہ غزہ کی جنگ اس وقت تک جاری ہے جب تک حماس کا نام و نشان اور فلسطینی باقی ہیں ان کی 7 اکتوبر سے یہی خواہش ہے کہ حماس اور فلسطینیوں کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں کہیں ایسا کو ئی پلان موجود ہے جس کے تحت ’’بیت المقدس‘‘ کی حفاظت کی جائے۔ دنیا بھر میں مشرق سے لے کر مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں کی بھری آبادیوں میں سے کہیں بھی فلسطینیوں کے لیے کوئی آواز نکل رہی ہے۔ اس کے برعکس روسی اور چینی وزارتِ خارجہ سے روزآنہ کوئی نہ کوئی آواز فلسطینیوں کی ہمدردی میں ضرور نکلتی ہی رہتی ہے۔
عالمی اخبارات کے مطابق امریکی سیکرٹری خارجہ انتونی بلنکن کا مشرق وسطیٰ کا مشن اسرائیلی سیاست سے ٹکرا جاتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ کہنا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنے کا وقت آ چکا ہے اور اب انتونی بلنکن کا کام ہے کہ وہ اسے ممکن بنائیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہودی امریکی سیکرٹری خارجہ انتونی بلنکن اور صدر جو بائیڈن دونوں ہی اسرائیل کے حامی اور مددگار ہیں۔ نیشنل سیکورٹی وزیر اتمار بین گویر اور وزیر خزانہ بیزالیل سموترچ کہتے ہیںکہ اردن دریا اور بحیرہ روم کے بیچ موجود سارا علاقہ یہودیوں کی زمین ہے جہاں یہودیوں ہی کو آباد ہونا چاہیے۔ ان کا موقف ہے کہ فلسطینیوں کو ’رضا کارانہ‘ طور پر غزہ چھوڑکر کسی دوسرے اسلامی ملک میں چلے جانا چاہیے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق قرارداد سے اسرائیلی اور عرب ممالک میں امن کے لیے سفارتی کوششوں کا دھچکا لگا ہے۔ قبل ازیں غزہ میں اسرائیلی طیاروں کی بے گھر فلسطینیوں پر بمباری نہ تھمی، 24 گھنٹوں کے دوران غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 90 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوج نے 10 روز میں اقوام متحدہ کے 8 پناہ گزین اسکولوں کو نشانہ بنایا۔ سول ڈیفنس کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وسطی غزہ کے نصیرات پناہ گزین کیمپ پر تازہ اسرائیلی حملے میں کم از کم 14 فلسطینی شہید ہوئے۔ دوسری جانب حماس نے بھی مارٹر گولوں اور بارودی سرنگوں سے جوابی حملے کیے جس میں کئی اسرائیلی ٹینک تباہ اور کئی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں اقوام متحدہ کی تنظیم انروا کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ملبے کو صاف کرنے میں 15 سال لگ سکتے ہیں غزہ میں جاری جنگ کے 10 ماہ بعد اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 2 لاکھ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔ اس تباہی اور بربادی کے پیچھے اسرائیل کا بیان کردہ مقصد یہ ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن حقیقت میں اسرائیل صرف حماس ہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کو نسل کشی جیسی اجتماعی سزا دے رہا ہے۔ اسرائیل کا مقصد فلسطینیوں کو زبردستی پڑوسی عرب ممالک یا کسی اور جگہ پر دھکیل کر ’گریٹر اسرائیل‘ بنانا ہے؟ اگر یہ مقصد ہے تو اسرائیل یقینی طور پر اپنی وحشیانہ طاقت کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہے اور فلسطینیوں کے عزم و حوصلے کو کم سمجھ رہا ہے۔ یہ فلسطینی اس سرزمین کو نہ چھوڑنے کے لیے پر عزم نظر آتے ہیں جہاں ان کے اجداد ہزاروں سال سے رہتے آ رہے ہیں۔
’’دنیا کا دو ریاستی فارمولا‘‘ قیام امن ضمانت ہے تو تاریخ اس کا جواب نہیں میں دیتی ہے۔ 1942ء میں جب اسرائیل میں یہودیوں کی کافی تعداد فلسطین پہنچ گئی اور مقامی عرب آبادی کو بے گھر کر دیا تو برطانیہ 1947ء میں اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا جہاں دو الگ الگ ریاستوں، فلسطین اور اسرائیل کے قیام پر اتفاق ہوا۔ تاہم اسرائیل نے کبھی بھی دو ریاستی حل کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔ اس کے بجائے اس نے بے بس فلسطینیوں پر نسل پرستی جیسا قبضہ مسلط کر دیا ہے۔ اسرائیل ’اپنے دفاع‘ کے نام پر اپنے مظالم کا جواز پیش کرتا رہتا ہے۔ سات اکتوبر 2023ء کو ہونے والی حماس کی کارروائی کسی خلا میں نہیں ہوئی اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے۔ حماس کی کارروائی قابض قوت کے خلاف مزاحمتی کارروائی تھی جو کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت جائز ہے۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے گھروں، اسکولوں اور اسپتالوںکو بے دریغ نشانہ بنانے پر نہ صرف عرب یا مسلم ممالک میں بلکہ امریکا سمیت تمام ممالک میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل ان آوازوں کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کے اس طرح کے شدید ردعمل کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حماس کے ممکنہ حملے سے بے خبر رہنے پر اسرائیل میں اندرونی طور پر تنقید ہورہی ہے۔ نیتن یاہو کو 24 جولائی کو امریکی سینیٹ کی دعوت پر خطاب کے لیے امریکا جانا ہے اس قبل وہ مضبوط نظر آنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی مقبولیت میں عالمی اور ملکی سطح پر کمی آرہی ہے۔ امریکا کی حمایت نے بھی اسرائیلی قیادت کو حوصلہ دیا ہوگا۔ تاہم اب اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ امریکا فوری اور مستقل جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی برادری کے مطالبات کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ کچھ یورپی ممالک، جیسے برطانیہ، اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ان کے عوام غزہ میں شہریوں پر مسلسل بمباری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے غیر متزلزل عزم کے پیش نظر، نیتن یاہو کا ایک عظیم تر اسرائیل بنانے کا خواب پورا ہونے کا امکان نہیں ہے لیکن وہ اور ان کے انتہائی دائیں بازو کے ساتھیوں کا مقدر یقینا تاریخ کی کتابوں میں سب سے زیادہ بے رحم اور سنگدل حکومت کے طور پر لکھا جانا ہے۔