کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) وفاقی بجٹ عوام دشمن ہے ،مہنگائی کا نیا طوفان آئیگا،وفاقی وصوبائی بجٹ میں عوام کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے۔ظالم حکمرانوں کا بس چلے تو یہ ہوااور لوگوں کے سانس لینے پر بھی ٹیکس لگادیں اپنے 35 سالہ کیرئیر میں سب سے مشکل بجٹ دیکھا ہے، ملک میں فرسودہ اور بدبودار سودی نظام غریبوں کا خون چوس کر طاقتور لوگوں کو مزید طاقت دیتا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ سود اورآئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل کیے بغیر ملک و قوم کی قسمت تبدیل نہیں ہوسکتی ہے، وفاقی بجٹ پر عملدرآمد شروع ہوتے ہی مہنگائی کا نیا طوفان ملک میں آمڈ آیا ہے۔ اس طوفان سے بالادست طبقات محفوظ رہیں گے۔ امراء جن میں تاجر، صنعت کار اور بڑے زمیندار شامل ہیں ان کا اس طوفان سے کچھ نہیں بگڑے گا۔ پاکستانی حکومت دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں قرضوں کی زیادہ ادائیگی کر رہی ہے اور اگلے کئی سالوں تک ایسا کرتی رہے گی۔ پاکستان میں رجعت پسند ٹیکسوں کا بوجھ کم مراعات یافتہ طبقوں، خاص طور پر سفید پوش تنخواہ دار افراد اور پاکستان میں ایک مقررہ آمدنی والے نچلے اور متوسط طبقے کے ارکان پر مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ان خیالا ت کا اظہار جماعت اسلامی سندھ کے امیر وسابق ایم این اے محمد حسین محنتی ، سینئر کالم نگار و تجزیہ کار،وفاقی جامعہ اردو شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق چیئرمین،گذشتہ تیس برس سے زاید سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں شعبہ تدریس سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان،اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے سابق گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید ،پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین توقیر الحق اور وکالت کے شعبے سے وابستہ ، مضمون نگار، متعدد کتابوں کے مصنف، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینئر وزٹنگ فیلو ڈاکٹر اکرام الحق نے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے سوال:کیا قومی بجٹ کی منظوری سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا؟کے جواب میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی نے کہا کہ وفاقی بجٹ عوام دشمن ہے ،مہنگائی کا نیا طوفان آئیگا،وفاقی وصوبائی بجٹ میں عوام کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے۔ حکومتی دعووں کے برعکس ٹیکسوں کی بھرمار سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا جس سے عام غریب آدمی ہی متاثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن جماعتیں شریف حکومت کے پیش کردہ بجٹ کو عوام دشمن، پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ عوام کو ریلیف نہیں ملا اور خودحکمراں جماعت ن لیگ کے سربراہ نواز شریف بھاری ٹیکسوں سے ناراض اور دل گرفتہ ہیں تو پھر قوم پوچھنا چاہتی ہے کہ آخر یہ بجٹ بنایا کس نے ہے ؟۔انہوں نے کہا کہ سودی نظام ،آئی ایم ایف کی غلامی اورکرپٹ قیادت سے نجات کے بغیرملک وقوم کی تقدیر نہیں بدل سکتی ہے۔انہوں نے کہاکہ موجودہ بجٹ میں سفید پیش و کم آمدنی والے طبقے پر بھاری ٹیکس لگار کر ان کی مشکلات مزید اضافہ کیا گیا ہے۔انہوں نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی غلامی کے دستاویز کو بجٹ کا نام دیدیا گیا ہے جس میں سرکاری ملازمین سمیت عوام کو دن میں تارے دکھادیے گئے ، کتاب، کاپی اور پنسل پر بھی ٹیکس نافذ کرکے علم اور کتابوں سے دشمنی کا ثبوت دیا گیا ہے، بلاشبہ ٹیکسوں سے ہی حکومتی اخراجات پورے ہوتے ہیں لیکن عوام کو بنیادی سہولیات بھی دینا ہوتی ہیں،تمام بوجھ پہلے ہی پسے ہوئے عوام پر ڈال دینا کہاں کا انصاف ہے۔ظالم حکمرانوں کا بس چلے تو یہ ہوااور لوگوں کے سانس لینے پر بھی ٹیکس لگادیں۔ ملک میں فرسودہ اور بدبودار سودی نظام غریبوں کا خون چوس کر طاقتور لوگوں کو مزید طاقت دیتا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ سود اورآئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل کیے بغیر ملک و قوم کی قسمت تبدیل نہیں ہوسکتی ہے،ملکی آمدن کا بڑا حصہ صرف سود کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے جو بہت بڑا المیہ ہے۔ان دنوں وطن عزیز پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ حالیہ بجٹ 25-2024 نے تو غریب سے اس کے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہاکہ وفاقی بجٹ پر عملدرآمد شروع ہوتے ہی مہنگائی کا نیا طوفان ملک میں آمڈ آیا ہے۔ اس طوفان سے بالادست طبقات محفوظ رہیں گے۔ امراء جن میں تاجر، صنعت کار اور بڑے زمیندار شامل ہیں ان کا اس طوفان سے کچھ نہیں بگڑے گا۔مہنگائی کا یہ طوفان متوسط و نچلے طبقے کی معیشت کو تہس نہس کردے گا۔غریب آدمی کے لیے اپنے بچے کے لیے اب مہنگا دودھ خریدنا مشکل ہوجائے گا، عام آدمی کے لیے بجلی کے نرخ بڑھ جائیں گے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ پاکستان دنیا میں قرضوں کے مہلک ترین جال میں پھنس چکا ہے۔ دانشمندانہ راستہ یہ ہوگا کہ پاکستان کے قرضوں کو ری پروفائل کیا جائے تاکہ ترقی اور موسم پر خرچ کرنے کیلئے وسائل موجود ہوں۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں قرضوں کی زیادہ ادائیگی کر رہی ہے اور اگلے کئی سالوں تک ایسا کرتی رہے گی۔ ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ 6 فیصد پرپاکستان کی حکومت ترقی پذیر دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں معیشت کے حصے کے طور پر سود کی زیادہ ادائیگی کرتی ہے‘ ہماری حکومتوں نے بہت زیادہ قرضہ حاصل کیا ہے اور اسے خرچ جیسے غیر پیداواری اخراجات پر ضائع کردیا ہے۔ ماضی کے قرضوں کا موجودہ بوجھ ہمیں اپنی ترقی او موسم کی ضروریات پر ڈیفالٹ کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔انہوں نے کہا، ‘‘اس کی وجہ سے پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لئے تعزیری اور غیر حقیقی ٹیکسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے کوئی حقیقی وسائل نہیں بچتے ہیں۔ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے متنبہ کیا کہ جیسا کہ حال ہی میں کینیا میں دیکھا گیا ہے، یہ پاکستان کو سماجی عدم اطمینان کے خطرناک راستے پر ڈال رہا ہے۔ حکومت تعلیم کے مقابلے میں سود کی ادائیگی پر تقریبا تین گنا زیادہ خرچ کرتی ہے، جو سری لنکا کے بعد ترقی پذیر دنیا میں دوسرا بدترین تناسب ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ شرح سود کے اس بھاری بوجھ کے نتیجے میں، حکومت کے پاس سماجی اخراجات کے لئے کوئی وسائل نہیں بچتے ہیں۔ یہ خوفناک ہے کیونکہ ہماری آبادی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور معیشت میں ملازمتوں، برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے معیار کو بڑھانے کے لئے سماجی اخراجات اہم ہیں۔ توقیر الحق نے کہا کہ میں نے اپنے 35 سالہ کیرئیر میں سب سے مشکل بجٹ دیکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ دواسازی کے نقطہ نظر سے، لوگ جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ علاج پہلے ہی مہنگا ہو رہا ہے۔ صنعت پر کئی ٹیکس لگائے گئے ہیں اور بالاآخر، یہ لوگ ہی ادا کریں گے ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں اضافہ اور ایک کروڑ روپے سے زاید تنخواہوں پر ٹیکسوں پر اضافی 10 فیصد سرچارج اس شعبے کو مزید دباؤ میں ڈالے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے برآمدی صنعت کی حوصلہ شکنی کی ہے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ برآمدات پر نئے ٹیکس سے 300 ملین ڈالر کی ادویات کی برآمدات آدھی رہ جائیں گی۔انہوں نے مزید کہا کہ برآمدات پر مکمل اور حتمی ایک فیصد ٹیکس تھا۔ لیکن اب 29 فیصد انکم ٹیکس اور مزید 10 فیصد سپر ٹیکس بھی لگا دیا گیا ہے۔ کون سرمایہ کاری کرے گا؟۔ ڈاکٹر اکرام الحق نے کہاکہ پاکستان میں رجعت پسند ٹیکسوں کا بوجھ کم مراعات یافتہ طبقوں، خاص طور پر سفید پوش تنخواہ دار افراد اور پاکستان میں ایک مقررہ آمدنی والے نچلے اور متوسط طبقے کے ارکان پر مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس امیر اور طاقتور افراد اپنی استطاعت کے مقابلے میں انتہائی معمولی رقم ادا کر رہے ہیں یا ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ اشرافیہ کے بجٹ نے ٹیکسوں کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر لاد دیا ہے،تنخواہ دار لوگ اپنی تنخواہ سے بڑی رقم اپنے ا سکول جانے والے بچوں کی تعلیمی ضروریات پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں (جو بنیادی طور پر آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت ریاست کا فرض ہے) اور پھر بھی انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن D60 کے تحت پوری رقم کا ٹیکس کریڈٹ دستیاب نہیں ہے۔ یہ تنخواہ دار طبقے کے تئیں ہماری حکومت کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے جو ملک میں متوسط طبقے کی بھاری اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس کے برعکس ٹیکس میں بے مثال چھوٹ اور فوائد معاشرے کے امیر طبقے تک پہنچائے گئے ہیں۔تنخواہ دار افراد پر غیر معمولی ٹیکس کے بعد ان کے زیر کفالت بچوں پر ہونے والے تعلیمی اخراجات کی پوری رقم کو ٹیکس سے منہا ہونا چاہیے، بشرطیکہ وہ فیس اور دیگر اخراجات کی رسیدیں پیش کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کاروباری اور صنعتی گھرانوں کو تعلیمی سرمایہ کاری کے لیے لبرل مراعات دے تا کہ وہ اپنے کارکنوں کو اعلیٰ ہنر مند اور تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ تعلیمی اخراجات کو ٹیکس سے مکمل استثنیٰ ہونا چاہیے اور اسے محض ٹیکس کریڈٹ کے طور پر نہیں دیا جانا چاہیے۔