اسلام کا مخاطب: فرد یا اجتماعیت

323

فرد کی زندگی حق و باطل اور نیکی اور بدی کے درمیان کش مکش کے درمیان گزرتی ہے اور فرد کی اصلاح کا مقصد اس کش مکش میں اس کے صحیح کردار کی ادائی ہے۔ اس پر گرفت صرف اس بات پر نہیں ہوگی کہ اس کے انفرادی کردار یا محرکات میں کیا خرابی یا کوتاہی ہے بلکہ اس پر بھی ہوگی کہ جس معاشرے میں وہ زندگی گزار رہا ہے، اس کو ظلم اور طاغوت کی حکمرانی سے نجات دلانے میں اس نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے کہ فرد کا اپنی ذات کا تزکیہ اور اجتماعی زندگی کی اصلاح اور تاریخ کے دھارے میں حق پرستی اور عدل وانصاف کی کش مکش کی جدوجہد میں تعاون ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ فرد کی اصلاح کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے مگر دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کا انحصار صرف فرد کی اصلاح پر نہیں بلکہ اصلاح یافتہ افراد کے اس کردار پر ہے جو وہ اپنی اصلاح کے ساتھ معاشرے کی اصلاح، اور انسانی زندگی کے ادارے کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیر اور تشکیل نو کے لیے انجام دیتے ہیں، اور بالآخر تاریخ کے دھارے کو اللہ کی بندگی میں ڈھالنے اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام کے لیے انجام دیتے ہیں۔

فرد اجتماعیت کا حصہ ہے۔ معاشرے میں معیشت اور تمدن میں خیروشر کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے فرد جو کردار ادا کرتا ہے اور جدوجہد میں حصہ لیتا ہے، اس ہمہ گیر جدوجہد کا نام جہاد ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ جہاد اپنے نفس کی اصلاح اور نفسِ امارہ کو زیر کرنے سے شروع ہوتا ہے لیکن جہاد باللسان، جہاد بالعمل اور جہاد بالسیف سے عبارت ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ماضی میں جو مشن انبیاے کرامؑ نے انجام دیا، نبی آخرالزماںؐ کی سنت کے طور پر اب اْمت کی ذمہ داری… ہرہر فرد کی ہے۔ اْمت کا بحیثیت اْمت اس مقصد کے لیے اجتماعیت اور امامت کا قیام بھی ضروری ہے۔ فرد اور اجتماعیت دونوں کو اس وظیفے کو انجام دینا ہی ’اسلام‘ کا مقصود و مطلوب ہے۔ اس کا کام اقامتِ دین ہے اور یہی استخلاف کا تقاضا ہے۔ شاہ ولی اللہ ازالۃ الخفا میں اْمت کے اس مشن کو اس طرح بیان کرتے ہیں:’’خلافت اس عمومی سربراہی اور ریاست ِعامہ کا نام ہے جو اقامت ِ دین کے کام کی تکمیل کے لیے وجود میں آئے۔ اس اقامت دین کے دائرے میں علومِ دینیہ کا احیا، ارکانِ اسلام کا قیام، جہاد اور اس کے متعلقات کا انتظام، مثلاً لشکروں کی ترتیب، جنگ میں حصہ لینے والوں کے حصص و مالِ غنیمت میں ان کا حق، نظام قضا کا اجرا، حدود کا قائم کرنا، مظالم اور شکایات کا ازالہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض کی ادائی شامل ہے اور یہ سب آنحضرتؐ کی نیابت اور نمایندگی میں ہونا چاہیے‘‘۔

فرد کی اصلاح اس ہمہ گیر مقصد کے لیے ہے، خود مقصود بالذات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں متنبہ کردیا ہے کہ فرد کی محض اپنی ذات کی اصلاح کافی نہیں مگر معاشرے کے بگاڑ کی زَد بھی اس پر پڑتی ہے، اور اگر وہ اس کی اصلاح اور اسلامی اصولوں کے مطابق اجتماع کے ہر ادارے میں انصاف اور عدل کے قیام سے غافل رہتا ہے تو وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسولؐ تمھیں اْس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔ اور بچو اْس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اْنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔ (انفال: 24-25)

اسلام کا طرئہ امتیاز ہی یہ ہے کہ اس نے فرد اور اجتماعیت کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ نہ انفرادیت کو اس حد تک آزاد چھوڑا ہے کہ انسان اپنی ذات کے سوا کسی کو خاطر میں نہ لائے اور نہ اجتماع، جماعت اور ریاست کو ایک شتربے مہار بننے کا موقع دیا ہے کہ فرد، اس کی آزادی، حقوق اور تعمیر میں اور تشکیلی کردار کی نفی کردے اور اسے مشین کا ایک بے جان پرزہ بنا دے۔ اس نے فرد کو اہم ترین اکائی بنایا ہے لیکن جس کلمے کی بنیاد پر وہ اللہ کا بندہ بنتا ہے اور رب کے خلیفے کا مقام حاصل کرتا ہے، اس کلمے کی بنیاد پر اسی لمحے ملتِ اسلامیہ اور حزب اللہ کا رکن بن جاتا ہے اور جماعت کی تقویت کا باعث اور اس کے ڈسپلن کا پابند بن جاتا ہے۔ یہ توازن اور توافق زندگی کے ہر میدان میں قائم کیا گیا ہے خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا کام و دہن کی لذت سے، خاندانی زندگی سے ہو یا معاشی سرگرمی سے، سیاست سے ہو یا معاشرت سے، ادب سے ہو یا ثقافت سے۔ بقول اقبال؎
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

آیئے، اسلام کے اس تاریخی کارنامے کے چند پہلوئوں پر غور کریں تاکہ اسلام اور ریاست کے تعلق کو سمجھنے اور استخلاف کے کردار کی ادائی اور اس کے تقاضوں کے صحیح ادراک اور ان کو پورا کرنے کے لیے جو منہج دین نے مقرر کیا ہے اور جس کا بہترین نمونہ حضور اکرمؐ نے مکہ اور مدینہ کی زندگی میں پیش فرمایا اور جس کا تسلسل دورِ خلافت راشدہ میں بہ تمام و کمال تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور اْمت کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا مینار ہے، اس منہج کی روشنی میں اجتماعیت کے بارے میں اسلام کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بات کا آغاز ہم خود عبادات پر غوروفکر سے کرتے ہیں۔