سیاسی لیڈروں پر تنقید اسی حد تک رہنی چاہیے جس حد تک تنقید کی ضرورت ہے۔ ان کی بْرائیاں جو واقعی ہوں، ان سے عوام کو بچانے کے لیے، ان بْرائیوں کو پوری تفصیل سے بیان کرنا چاہیے اور کوشش کرنا چاہیے کہ ان بْرائیوں کو ایسے انداز سے بیان کیا جائے کہ عوام سمجھ جائیں اور ایسے لیڈروں کی پیروی اور ساتھ دینے سے اجتناب کریں۔ حقیقت کو واضح کردینا ضروری ہے تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے، ورنہ جہاں ان کے لیڈر مجرم ہوں گے وہاں وہ بھی ان کے جرم میں شریک شمار ہوں گے۔ دنیا میں اس قسم کے لیڈروں کے پیروکار قیامت میں پچھتائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کاش! دنیا میں ایک مرتبہ واپسی کا موقع ملے تاکہ ہم ان سے اعلانِ برأت کرسکیں۔ (ملاحظہ ہو البقرہ، آیت 166، احزاب، آیت 67-68، الصّٰفات آیت 22-40)
مفکرِ اسلام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ سورئہ حجرات، آیت 12 کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں: ’’سنت رسولؐ کی ان نظیروں سے استفادہ کرکے فقہا اور محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ’’غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے، جب کہ ایک صحیح (یعنی شرعاً صحیح) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہو‘‘۔ پھر اسی قاعدے پر بنا رکھتے ہوئے علما نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں:
1۔ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو رفع کرنے کے لیے کچھ کرسکتا ہے۔
2۔اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی بْرائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ اْمید ہو کہ وہ ان بْرائیوں کو دْور کرنے کے لیے کچھ کرسکیں گے۔
3۔استفتا کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورتِ واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آجائے۔
4۔لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں، مثلاً راویوں، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے، عدالتوں کو بے انصافی سے اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے، یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ نا واقفیت میں وہ دھوکا نہ کھا جائے۔
5۔ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آواز بلندکرنا اور اْن کی بْرائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں، یا بدعات اور دیگر بْرائیوں کی اشاعت کر رہے ہوں، یا خلقِ خدا کو بے دینی اور ظلم و جَور کے فتنوں میں مبتلا کررہے ہوں۔
6۔جو لوگ کسی بْرے لقب سے اس قدر مشہور ہوچکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جاسکتے ہوں، ان کے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرضِ تنقیص‘‘۔ (تفہیم القرآن)
اس تشریحی نوٹ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لادین لوگوں اور پارٹیوں کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے ان کے نقائص کو واضح کرنا غیبت نہیں ہے۔ البتہ شریعت لادین لوگوں یا کسی بھی گروہ کے نقائص کو واضح کرنے اور ان پر تنقید کرنے کے لیے ایسی زبان استعمال کرنے کی تلقین کرتی ہے جو اخلاقی حدود کے اندر ہو، سب و شتم اور لعن طعن
سے پاک ہو۔