زیارتِ قبور اور تذکیر موت

303

ارشادِ نبوی ہے: ’’میں نے تمھیں ( پہلے) قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، پس (اب) قبروں کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا میں زہد کی صفت پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے‘‘۔ (ترمذی)
وقتاً فوقتاً قبروں کی زیارت آپؐ کا معمول رہا ہے۔ اس موقع پر خاص طور آپؐ یہ دعا پڑھتے تھے:
اَلسَّلَامْ عَلَیکْم یَا اَھلَ القْبْورِ یَغفِرْاللہْ لَنَا وَلَکْم، اَنتْم سَلَفَنَا وَنَحنْ بِالاثَرِ (ترمذی) ’’اے اہلِ قبور! آپ سب پر سلامتی ہو، اللہ ہماری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے، آپ لوگ [ہم سے] پہلے جا چکے اور ہم بس آپ کے پیچھے ہیں‘‘۔

مزید یہ کہ آپؐ صحابہ کرامؓ کو قبرستان میں داخل ہونے کی دعائیں بھی سکھاتے تھے۔ ان میں یہ دْعا بہت معروف ہے:
اَلسَّلَامْ عَلٰی اَھلِ الدِّیَارِ مِنَ المْومِنِینَ وَالمْسلِمِینَ وَ اِنّا اِن شَائَ اللہْ بِکْم لَلَاحِقْونَ ، نَسئَلْ اللہَ لَنَا وَلَکْمْ العَافِیۃ (مسلم) ’’اے مومنوں و مسلمانوں کی بستی والو! تم پر سلام ہو اور ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ سے اپنی اور تم سب کی عافیت طلب کرتے ہیں‘‘۔

سونے اور بیدار ہونے، سواری پر بیٹھنے، قبر ستان میں داخل ہونے، نمازِ جنازہ ادا کرنے اور قبر میں مٹّی ڈالنے کے وقت کی جو دعائیں مسنون ہیں ان سب کے الفاظ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ ان سب سے کسی نہ کسی صورت میں موت کی تذکیر بھی مقصود ہوتی ہے۔
حقیقت یہ کہ قبرستان میں حاضری، کچھ دیر قبروں کے پاس کھڑے رہنے اور اہلِ قبور کو یاد کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس سے ذاتی تذکیر ہوتی ہے۔ قبرستان میں حاضری اور قبروں کی زیارت اس لحاظ سے بھی باعثِ عبرت ہے کہ قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ قرآن کریم کے مطابق انسان اپنی اِس منزل کی جانب رواں دواں ہے یہاں تک کہ وہ ایک روز اللہ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔ ارشادِ الٰہی ہے:’’اے انسان! تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے( ایک مقررہ وقت پر) ملنے والاہے‘‘۔ (الانشقاق: 8)

آخرت کے سفر میں اس پہلی منزل ( قبر) کی اہمیت اْس حدیث سے بخوبی واضح ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک صحابی نے سیدنا عثمانؓ کو قبر کے پاس کھڑے ہوکر زار و قطار روتے دیکھا تو دریافت کیا کہ آپ جنت و دوزخ کے تذکرے پر اس قدر نہیں روتے جس قدر کی قبر کی زیارت پر۔ انھوں نے جواب میں نبی اکرمؐ کا یہ ارشاد نقل فرمایا کہ:’’قبر آخرت کے منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی اس سے [کامیابی کے ساتھ] نجات پا گیا تو بعد کی منازل طے کرنا اس کے لیے نہایت آسان ہوگا اور اگر اس سے نجات نہ پا سکا تو اس کے بعد [کے مراحل میں] جو کچھ ہے وہ اس سے بہت سخت ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
اْس حدیث سے مرحلۂ قبر کی عبرتیں و نصیحتیں مزید واضح ہوتی ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ قبر یہ آواز نہ دیتی ہو: ’’میں اجنبیت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹّی کا گھر ہوں، میں کیڑے مکوڑے کا گھر ہوں‘‘۔ (ترمذی)
سیدنا عبداللہ ابن عبیدؓ کے بیان کے مطابق جب میت کے ساتھ آنے والے واپس چلے جاتے ہیں تو سب سے پہلے قبر ان سے مخاطب ہو کر پوچھتی ہے: ’’اے ابن آدم! کیا تو نے میرے حالات نہ سنے تھے؟ کیا تو میری تنگی، بدبو، ہولناکی اور کیڑوں سے نہ ڈرایا گیا تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر تو نے کیا تیاری کی؟ (کتاب، نقش ممات، ص 161)
ان روایات کے پس منظر میں اْس حدیث کی اہمیت و معنویت مزید بڑھ جاتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ قبرستان میں کھڑے ہوکر ہادی برحقؐ نے صحابہؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بھائیو! اس( قبر) کی تیاری کرو‘‘۔ (ترمذی)

اس گھر کی تیاری سے مقصود اس کی پختہ تعمیر اور تزئین نہیں، بلکہ دنیوی زندگی کی تعمیر و اصلاح یا اعمالِ صالحہ سے اس کی آراستگی ہے جو اس گھر میں سکونت کو آرام دہ و خوش گوار بنائے گی۔ یہ نکتہ اس حدیث کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر قبر میں داخل ہونے والا ایمان و عمل صالح سے مزین ہے تو اس کے لیے قبر وسیع ہوجاتی ہے اور وہ بہترین آرام گاہ بن جاتی ہے۔ (ترمذی)
اس میں شبہہ نہیں کہ جنازے میں شرکت اور قبروں کی زیارت اسی پہلی منزل کے لیے تیاری کی یاد دلاتی ہے۔ اس سے نہ صرف اپنی موت یاد آتی ہے، بلکہ موت کے بعد نصیب ہونے والے مسکن (قبر) کا منظر بھی نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور یہ احساس قوی ہو جاتا ہے کہ چاہے انسان کتنے عالی شان مکان یا کوٹھی، بنگلے یا محل کا مکین ہو، آخر کار اسے اسی ٹوٹے پھوٹے، تاریک، کیڑے مکوڑوں والے مٹی کے گھر میں رہنا ہے۔ ایک دو سال نہیں، بلکہ برسہا برس، جب تک قیامت نہ برپا ہوجائے جس کے وقت ِمقررہ کا علم صرف عالم الغیب و الشہادۃ کو ہے۔ لیکن موجودہ دور میں افسوس صد افسوس کہ اس عبرت و نصیحت کے مقام ( قبرستان) میں بھی بہت سے لوگ گپ شپ، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ اور سیاست و حکومت کے مسائل پر اظہار خیال میں وقت گزار دیتے ہیں۔ کاش! قبرستان میں ہوتے ہوئے ہم ذکرِ الٰہی اور فکرِ آخرت میں غرق ہوجائیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوگی جب پورے آداب و احترام، حضورِ قلب، انتہائی سنجیدگی اور رضاے الٰہی کی طلب کے ساتھ اس مقام پر جایا جائے یا قبروں پر حاضری دی جائے اور اس موقع کی مسنون دعائیں پڑھی جائیں۔ حقیقت یہ کہ ان مقامات پر اگر کوئی سچی طلب اور سنجیدگی کے ساتھ حاضری دے تو اسے غفلت سے بیداری نصیب ہوگی اور اس پر خشیتِ الٰہی و رجوع الی اللہ کی کیفیت طاری ہوئے بغیر نہ رہے گی۔ خلاصہ یہ کہ قبروں کی زیارت سے موت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، آخرت کی تیاری کی فکر بڑھ جاتی ہے، اور اکتسابِ خیر کی طلب پیدا ہوتی ہے۔