احسان
احسان سے مراد نیک برتاؤ، فیاضانہ معاملہ، ہمدردانہ رویہ، خوش خلقی، باہمی مراعات، ایک دوسرے کا پاس و لحاظ، دوسرے کو اس کے حقوق سے کچھ زیادہ دینا اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہوجانا ہے۔ یہ انصاف سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور کمال۔ عدل اگر معاشرے کو ناگواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر دیکھتا ر ہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کرکے چھوڑے اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور بس اسے اتنا ہی دے دے۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھرے معاشرے میں کش مکش تو نہ ہوگی مگر وہ محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار اور اخلاص و خیر خواہی کی قدروں سے محروم ر ہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشو و نما دینے والی قدریں ہیں۔(معاشیات اسلام، ص148)
٭…٭…٭
ایمان کے ثمرات
اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات و تندرستی، قوت کار اور لذت زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے، لیکن یہ نتائج اس تغذیے کے نہیں ہوتے جو محض کھالینے کے معنی میں ہو، بلکہ اْس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہوکر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سے وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی، راست بینی، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقوف ہے، مگر یہ نتائج ان عقائد کے نہیں ہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بے کار پڑے ہوئے ہوں، بلکہ ان عقائد کے ہیں جو نفس کے اندر جذب و پیوست ہوکر اندازِ فکر اور مذاقِ طبع اور افتادِ مزاج بن جائیں اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی کی صورت میں نمایاں ہوں۔ خدا کے قانونِ طبعی میں وہ شخص جو کھاکر نہ کھانے والے کی طرح رہے، اْن انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اْس کے قانونِ اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے اْن انعامات کا مستحق ہوسکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟
(تفہیم القرآن، تفسیر سورہ یونس، آیت : 9)
٭……٭
خواہشات کو حقیقت بنائیں
دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے، وہ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ گویا ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعے کے مطابق ہو۔ حالانکہ حقیقت بہرحال حقیقت ہی رہتی ہے، خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔ تمام دنیا کی متفقہ خواہش بھی کسی واقعے کو غیر واقعہ اور کسی امرِ حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی، کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھلا کریں اور ہر آن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کرکے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے، ان کے زیر سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے کہ اپنے خیالات، خواہشات اور طرزِ عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے، اور اس غرض کے لیے ہر وقت دلیل، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرزِفکر و عمل اختیار کرسکتا ہے کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ ہو، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کرچکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے، اْس پر وہ جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے۔(تفہیم القرآن، سورہ المومنون، حاشیہ نمبر 68)