ہم کالی زبان کے لوگ ہیں۔ جو کہتے ہیں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ زبان زدخاص وعام تھا۔ یہ نعرہ دسمبر 1970 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے متعارف کرایا تھا تب سے روٹی کپڑا اور مکان عام آدمی کی پہنچ سے دور سے دور تر ہوتا جارہا ہے۔ اب اس فہرست میں پٹرول، بجلی اور گیس کا نہ صرف اضافہ ہوگیا ہے بلکہ ترجیحات میں انہوں نے روٹی کپڑا اور مکان کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 1977 کی الیکشن مہم دیکھتے ہی دیکھتے تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہوگئی اور ایک جنون کی صورت اختیار کر گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے اس نعرے کو اپنے مقاصد کے حصول سے اس طرح ضرب دی کہ آج قوم کو کوئی نظام یاد نہیں۔ ضیاء الحق کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو آئیں۔ ان کے بعد نوازشریف آئے۔ نوازشریف کے بعد پھر محترمہ آئیں۔ محترمہ کے بعد پھر نوازشریف آئے یہاں تک کہ آخرکا ر جنرل پرویز مشرف آگئے۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دیا۔ امت مسلمہ، برادر اسلامی ملک اور ان جیسی دیگر رومانوی اصطلاحات کے مقابل اس نعرے کا مطلب تھا کہ حقیقت کی دنیا میں کوئی امت مسلمہ ہے اور نہ کوئی برادر اسلامی ملک ہمیں صرف پاکستان کے مفاد سے دنیا کو دیکھنا چاہیے۔ یہ نعرہ اب سب سے پہلے پاکستان سے بھاگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ جسے دیکھیں پاکستان سے بھاگنے کی جستجو اور لگن میں ہے۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک اپنی تیز رفتار گاڑیوں میں چاند کے بعد دوسرے سیاروں اور خدا تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ اہل پاکستان کے لیے ترقی کا مفہوم صرف پاکستان سے بھاگ میں پوشیدہ ہوکر رہ گیا ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا کی سرپرستی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں کہا گیا کہ یہ امریکا کی نہیں بلکہ ہماری جنگ ہے۔ یہ نعرہ اس صورت میں ڈھلا کہ 2014 میں پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان سے لے کر تاحال ہم تو دہشت گردی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن دہشت گردی ہماری جان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ شدت پسندی، فرقہ واریت، عدم برداشت اور نفرت پھیلانے والے عناصر پاکستان میں خوب پھل پھول رہے ہیں۔ دینی مدارس اور فاٹا میں اصلا حات، کراچی میں امن وامان کا قیام، بلوچستان میں سیاسی مفاہمت، افغان مہاجرین کی واپسی، عسکریت پسندوں سے جنگ سے لے کر سرحدوں پر باڑ کی تعمیر تک ہم نے کیا کیا جتن نہ کیے، نام بدل بدل کر آپریشن لانچ کیے لیکن دہشت گردی کا عفریت ہمارے قابو میں نہ آسکا۔
23جون کو وزیراعظم شہباز شریف نے نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ’’آپریشن عزم استحکام‘‘ کے نام سے انسداد دہشت گردی کی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی۔ اب دیکھتے ہیں ہم کالی زبان والے اس عزم استحکام سے مستحکم ہوتے ہیں یا مزید غیرمستحکم۔
تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام نے ’’دو جسم مگر ایک جان ہیں ہم‘‘ کا منظر پیش کرتے ہوئے یکساں طور پر عزم استحکام کو مسترد کردیا جواز یہ پیش کیا کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ روز اوّل ہی سے ایسے ہر آپریشن کی مخالف ہے۔ وہ گاہے گاہے احتجاج کے مختلف قرینوں اور جلسہ جلوس کے ذریعے فوجی آپریشنز کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرواتی رہتی ہے۔ سیکورٹی ذرائع اس طرح کے احتجاج کو ’’سیاست‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف کثیرالجہت پالیسیوں کی ترتیب، منشیات کی روک تھام، اسمگلنگ، دہشت گردوں کو سزائیں دلوانے کے لیے موثر قانون سازی اور دہشت گردی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے اپنے عزم میں مزید مستحکم اور سخت ہوجاتے ہیں۔
جنگیں اور فوجی آپریشنز ماضی میں ہمارے جرنیلوں کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار رہے ہیں۔ 1978 میں افغانستان میں سوویت یونین کی آمد اور انقلاب ثور کو ناکام کرنے کے لیے امریکا اور سعودی عرب کی پشت پنا ہی اور آشیرباد پر جنرل ضیاء الحق نے امریکی صدر جمی کارٹر کی مونگ پھلیاں مسترد کرکے اور صدر ریگن کے ڈالر قبول کرکے اس جہاد کا آغاز کیا جو ڈالرکی پاکستان میں آمدکی بنیاد پر کھڑا تھا۔ اس جنگ میں ہمارے ’’فاتح‘‘ جرنیلوں اور ان کی اولاد نے خوب ڈالر بٹورے اور بیرون ملک جائدادیں بنائیں۔ 1996 میں افغانستان میں ملا عمر ؒ کی قیادت میں طالبان کی حکومت کے قیام نے افغانستان کو ایک نئی جہت دے دی۔ 2001 کے بعد وارآن ٹیرر یا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں ہماری شمولیت نے ڈالروں کی برکھا کا رُخ ایک مرتبہ پھر ہماری طرف موڑ دیا دوسری طرف افغانستان سے بے دخل کیے جانے والے طالبان کو پناہ دینے کے الزام میں امریکا کی طرف سے ہمیں ڈبل گیم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا کی نظر میں سرخرو ہونے، الزامات کو غلط ثابت کرنے اور مزید ڈالروں کے حصول کی چاہ میں 2004 میں پہلی مرتبہ سابقہ فاٹا میں مجاہدین کو بے دخل کرنے کے سلسلے میں پہلی مرتبہ فوجی آپریشن آغاز کیا گیا۔
اس آپریشن سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید مشکل اور پیچیدہ ہوگیا۔ لاکھوں کی تعداد میں عوام بے گھر ہوگئے اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے ہی عوام کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔ اس آپریشن کے ردعمل میں ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ امریکن پلانٹڈ تنظیم تھی جس نے افغان طالبان مجاہدین کو پاکستانیوں کی نظر میں برا اور بدنام کرنے کے لیے پورے پاکستان میں بالعموم اور خیبر پختون خوا اور بلاچستان میں طالبان کے نام سے دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں۔ یوں رفتہ رفتہ پختون خوا میں ٹی ٹی پی ایک قوت بن کر ابھری جس نے مالا کنڈ سے متصل علاقوں میں اپنی رٹ بھی قائم کردی۔ تب ٹی ٹی پی کے خلاف ایک کے بعد دوسرا آپریشن لانچ ہونے لگا جن کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے۔
15 نومبر 2007 کو پختون خوا کے ضلع سوات میں جنرل پرویز مشرف نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف پہلا بڑا فوجی آپریشن ’’راہ حق‘‘ کے نام سے شروع کیا جب ٹی ٹی پی اور ان کے ساتھ غیر ملکی ایجنٹوں نے سوات پر قبضہ کرلیا تھا اور اپنی طرز کی شریعت کا نفاذ کیا تھا۔ اسکولوں کالجوں مساجد اور دیگر عبادت گاہوں کو بموں سے اڑایا جارہا تھا۔ خواتین کو گھروں میں بند کردیا گیا تھا اور ان پر تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے تھے۔ ملالہ یوسف زئی کا واقعہ بھی انھی دنوں کی یادگار ہے۔ اس آپریشن کے دوران مسلسل گیارہ ماہ اہل سوات اپنی تاریخ کے بدترین کرفیو سے گزرے جس میں بجلی اور ٹیلی فون کے نظام کے تعطل نے لوگوں کے مصائب میں بہت زیادہ اضافہ کیا۔
2009 میں سوات اور اس سے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردوں اور طالبان کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائی کو ’’آپریشن راہ راست‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اوّل اوّل ملا فضل اللہ ریڈیو نشریات کے ذریعے قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتا تھا اور لوگوں کو نیک بننے کا درس دیا کرتا تھا مگر پھر بتدریج اس کا لہجہ سخت ہوتا چلا گیا نوبت یہاں تک پہنچی کہ جس کی اصلاح مقصود ہوتی اس کا نام ریڈیو پر لیا جاتا اور پھر بعد میں طالبان اس شخص کی اصلاح کا بندوبست کرتے۔ آپریشن راہ راست جنرل پرویز کیانی کی قیادت میں تین مہینے تک جاری رہا۔
2009 میں ہی جنوبی وزیرستان میں ’’آپریشن راہ نجات‘‘ شروع کیا گیا جس کی وجہ جنگجو کمانڈر بیت اللہ محسود تھا جس کے نتیجے میں دور دراز علاقوں میں رہنے والے قبائلیوں کو بڑی تعداد میں نقل مکانی کرنی پری۔ ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں محسود قبائل کے خلاف کریک ڈائون کیے گئے۔
(جاری ہے)