ایک طرف اسلام پیاسی روحوں کو تیزی سے سیراب کر رہا ہے اور طاغوت اشاعت ِ دین سے پریشان ہے اور دوسری طرف پریشانی کی بات یہ ہے کہ مسلم گھرانوں کے نوجوان اسلامی تعلیمات سے بیگانہ و بے بہرہ ہوتے جارہے ہیں۔ نئی نسل کی دین سے دُوری سمجھ میں نہ آنے والی بات نہیں کیونکہ طاغوت اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اسلام چونکہ ترقی یافتہ دنیا کے دروازوں پر دستک دے کر اپنی حقانیت منوارہا ہے اِس لیے وہ تو اپنی سی کوشش کریں گے ہی کہ یہ دین نہ پھیلے۔
جب طاغوت نے محسوس کرلیا کہ اُس کے ہتھکنڈے کامیاب نہ ہوں گے اور یہ چراغ پُھونکوں سے بجھایا نہ جاسکے گا تو اُس نے تفرقہ ڈالنے کا راستہ اپنایا۔ مسلمانوں کو مسالک میں تقسیم کرنے کا عمل شروع کیا گیا، مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرنے کی روش اپنائی گئی۔ جو کچھ طاغوت نے کیا وہ اپنی جگہ اور جو کچھ ہم نے کیا ہے وہ بھی اپنی جگہ۔ لوگوں نے دین کو ٹکڑے کرکے آپس میں بانٹ لیا۔ کسی بھی مسلک کے ماننے والوں کے پاس جو کچھ ہے وہ اُسی میں خوش ہیں۔ ہر مسلک نے چند باتوں اور چند نشانیوں کا دامن تھام کر اُسی کو دین سمجھ رکھا ہے۔ مساجد تک کا بٹوارا ہوچکا ہے۔ اب مسالک اور فرقوں کی مساجد ہیں، خالص مسلم مسلم مسجد ڈھونڈے سے بھی مشکل سے ملتی ہے۔
معمولی اور بے وقعت سی باتوں یا اختلافات اور رسوم و رواج کی بھرمار نے دین کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کردیا ہے۔ مسجد کے منبر پر بیٹھنے والے خطیبوں اور اماموں کا کام موضوع روایات کو بڑھا چڑھاکر بیان کرنے تک محدود ہوچکا ہے۔ اسلام میں ان موضوع روایات اور بے معنی رسوم و رواج کی ککھ بھی اہمیت نہیں۔ ان فضولیات کو بڑھاکر چڑھاکر بیان کرنا ہی اب خطیبوں کی آتش بیانی کی مہارت قرار پائی ہے۔
نئی نسل یا تو فضولیات میں الجھ کر حقیقی دین سے دور ہوتی جارہی ہے یا پھر مسلک اور مکتب ِ فکر کے اختلاف کی بنیاد پر تکفیر کا عمل اُسے بیزار کر رہا ہے۔ نئی نسل یہ سوچ سوچ کر پریشان ہے کہ کرے تو کیا کرے، جائے تو کہاں جائے۔ یہ کرے تو کافر، وہ کرے تو کافر ؎
حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ امت روایات میں کھوگئی
فکر و نظر کے نام پر بے بنیاد اور معمولی نوعیت کے اختلافات نے نئی نسل کا ذہن پراگندا کردیا ہے۔ فرقہ پرستون کے پاس معاملات کی درستی کے لیے کوئی حل نہیں۔ یہ لوگ تو جنت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے مسلک کے قبول کرنے والوں کو جنتی قرار دیتے ہیں اور باقی سب کو جہنمی۔ اِن کی عقل کی سطح دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو نذرانہ وصول کرکے جنت کا پروانہ جاری کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
دین کی اقامت اور اشاعت کا بنیادی فریضہ چھوڑ کر یہ لوگ مسلک کی بنیاد پر اپنی اپنی دکان داری چلا رہے ہیں۔ اور کیوں نہ چلائیں کہ اِس میں مال ہی مال ہے۔ اِن کے لیے دنیا ہی تو مطلوب و مقصود ہے۔
یہ لوگ دین کو کوڑیوں کے عوض بیچنے پر تُلے ہیں۔ اِنہیں رب کی وعید کا بھی خیال نہیں۔ اگر کوئی معترض ہو تو بہت مزے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اپنا مسلک چھوڑو مت، کسی کا مسلک چھیڑو مت۔ اب یہ تکفیری سلسلہ رُک جانا چاہیے۔ یہ لوگ نئی نسل کو الحاد کی طرف موڑ کر اپنے لیے بھی جہنم کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ فرقہ پرست اللہ سے ڈریں، اُمت ِ مسلمہ پر رحم فرمائیں کہ فرقہ پرستی کی انتہا نے طاغوت کا کام آسان کردیا ہے اور امت ِ مسلمہ کو اُس کے لیے تر نوالا بنادیا ہے۔ اسلام کو مٹانے کی کوشش میں اس وقت طاغوت جو مزے لُوٹ رہا ہے اُس میں فرقہ پرستوں کا بھی حصہ ہے جو اُنہیں مل رہا ہے۔