مقصد شہادتِ حسینؓ

185

ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی‘ امام حسینؓ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ان غمگساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں‘ جس کے لیے امامؓ نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔
اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امامؓ تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسینؓ کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے‘ یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خوں ریزی کر سکتے تھے۔ پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقامؓ کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں‘ جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا‘ حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو وہ نہ صرف اسے جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔

ریاست کے مزاج‘ مقصد اور دستور کی تبدیلی
وہ تغیر کیا تھا؟ اگر نظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک برے آدمی کا برسرِ اقتدار آجانا کوئی ایسی بڑی بات ہو سکتی ہے‘ جس پر امام حسینؓ جیسا دانا و زیرک اور علم شریعت میں گہری نظر رکھنے والا شخص بے صبر ہو جائے۔ اس لیے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیر نہیں ہے‘ جس نے امامؓ کو بے چین کیا تھا۔ تاریخ کے غائر مطالعے سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتداء ہو رہی تھی‘ وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے لیکن ایک صاحبِ نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے وہ آخرکار اسے کہاں لے جائے گا۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امامؓ نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔

نقطہ انحراف
اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسولؐ اور خلفاء راشدینؓ کی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا‘ اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظامِ ریاست کا آغاز ہوا‘ اس کے اندر کیا خصوصیات بنی امیہ و بنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں۔ اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پر چل رہی تھی اور اس نقطۂ انحراف پر پہنچ کر آگے وہ کس لائن پر چل پڑی‘ اور اسی تقابل سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسولؐ اور سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا علیؓ کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور جس نے صحابہؓ کی بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں‘ وہ کیوں اس نقطہ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو نئی لائن پر جانے سے روکنے کے لیے کھڑا ہو گیا‘ اور کیوں اس نے اس بات کی بھی پرواہ نہ کی کہ اس زور دار گاڑی کا رخ موڑنے کے لیے اس کے آگے کھڑے ہو جانے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے؟

انسانی بادشاہی کا آغاز
اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا‘ اور عملی رویہ سے اس عقیدے و یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خدا کا ہے‘ باشندے خدا کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں ہے۔ اور رعیت اس کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوں کا کام سب سے پہلے اپنی گردن میں خدا کی بندگی و غلامی کا قلاوہ ڈالنا ہے‘ پھر یہ ان کی ذمے داری ہے کہ خدا کی رعیت پر اس کا قانون نافذ کریں۔ لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا‘ اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے‘ یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت کی جان‘ مال‘ آبرو‘ ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا کا قانون ان بادشاہتوں میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا‘ بادشاہ اور ان کے خاندان اور امراء اور حکام زیادہ تر اس سے مستثنیٰ ہی رہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعطل
اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا‘ جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو ناپسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتح ممالک اور تسخیر خلائق اور تحصیل باج و خراج اور عیش دنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ خدا کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت بادشاہوں نے کم ہی کبھی انجام دی۔ ان کے ہاتھوں اور ان کے امراء اور حکام اور درباریوں کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں بہت زیادہ پھیلیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام اور اشاعتِ دین اور علومِ اسلامی کی تحقیق و تدوین کے لیے جن اللہ کے بندوں نے کام کیا‘ انہیں حکومت سے مدد ملنی تو درکنار اکثر وہ حکمرانوں کے غضب ہی میں گرفتار رہے اور اپنا کام وہ ان کی مزاحمتوں کے علی الرغم ہی کرتے رہے۔ ان کی کوششوں کے برعکس حکومتوں اور ان کے حکام و متوسلین کی زندگیوں اور پالیسیوں کے اثرات مسلم معاشرے کو پیہم اخلاقی زوال ہی کی طرف لے جاتے رہے۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا‘ جس کی بدترین مثال بنو امیہ کی حکومت میں نومسلموں پر جزیہ لگانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
اسلامی ریاست کی روح تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری کی روح تھی‘ جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا۔ حکومت کے عمال اور قاضی اور سپہ سالار‘ سب اس روح سے سرشار ہوتے تھے اور پھر اس روح سے وہ پورے معاشرے کو سرشار کرتے تھے‘ لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصر و کسریٰ کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کر لیے۔ عدل کی جگہ ظلم و جور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ پرہیزگاری کی جگہ فسق و فجور اور راگ رنگ اور عیش و عشرت کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ حرام و حلال کی تمیز سے حکمرانوں کی سیرت و کردار خالی ہوتی چلی گئی۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے کی بجائے حاکم لوگ بندگانِ خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے اور لوگوں کے ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔

اسلامی دستور کے بنیادی اصول
یہ تو تھا روح و مزاج اور مقصد اور نظریے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رونما ہوا۔ اس دستور کے سات اہم ترین اصول تھے‘ جن میں سے ہر ایک کو بدل ڈالا گیا۔

1۔ آزادانہ انتخاب
دستورِ اسلامی کا سنگِ بنیاد یہ تھا کہ حکومت لوگوں کی آزادانہ رضا مندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کر دیں۔ بیعت اقتدار کا نتیجہ نہ ہو بلکہ اس کا سبب ہو۔ بیعت حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کسی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری طرح آزاد ہوں۔ جب تک کسی شخص کو بیعت حاصل نہ ہو وہ برسرِ اقتدار نہ آئے اور جب لوگوں کا اعتماد اس پر سے اٹھ جائے تو وہ اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ یزید کی ولی عہدی وہ کارروائی ثابت ہوئی جس نے اس قاعدے کو الٹ کر رکھ دیا۔ اس سے خاندانوں کی موروثی بادشاہتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا‘ جس کے بعد سے آج تک پھر مسلمانوں کو انتخابی خلافت کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہو سکا۔ اب لوگ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسرِ اقتدار آنے لگے۔ اب بیعت سے اقتدار حاصل ہونے کی بجائے اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی۔ اب بیعت کرنے یا نہ کرنے میں لوگ آزاد نہ رہے اور بیعت کا حاصل ہونا اقتدار پر قائم رہنے کے لیے شرط نہ رہا۔ لوگوں کی اول تو یہ مجال نہ تھی کہ جس کے ہاتھ میں اقتدار تھا‘ اس کی بیعت نہ کرتے۔ لیکن اگر وہ بیعت نہ بھی کرتے تو جس کے ہاتھ میں اقتدار آ گیا تھا‘ وہ ہٹنے والا نہ تھا۔

2۔ شورائی نظام
دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان بزرگوں سے کیا جائے جن کے علم‘ تقویٰ اور اصابتِ رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہو۔

3۔ اظہارِ رائے کی آزادی
اس دستور کا تیسرا اصول یہ تھا کہ لوگوں کو اظہارِ رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے صحیح راستے پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں‘ وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کہہ سکیں۔ یہ آزادی ان کی طرف سے کوئی عطیہ اور بخشش نہ تھی جس کے لیے وہ قوم پر اپنا احسان جتاتے‘ بلکہ یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری حق تھا‘ جس کا احترام کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے‘ اور اسے بھلائی کے لیے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اور رسول کا عائد کردہ ایک فریضہ تھا‘ جس کی ادائیگی کے لیے معاشرے اور ریاست کی فضاء کو ہر وقت سازگار رکھنا ان کی نگاہ میں فرائضِ خلافت کا ایک اہم جز تھا۔ لیکن بادشاہی دور کا آغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھا دیے گئے اور منہ بند کر دیے گئے۔ اب قاعدہ یہ ہو گیا کہ زبان کھولو تو تعریف میں کھولو‘ ورنہ چپ رہو۔ اور اگر تمہارا ضمیر ایسا زور آور ہے کہ حق گوئی سے تم باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل کے لیے تیار ہو جاؤ۔ یہ پالیسی رفتہ رفتہ مسلمانوں کو پست ہمت‘ بزدل اور مصلحت پرست بناتی چلی گئی۔ خطرہ مول لے کر سچی بات کہنے والے ان کے اندر کم سے کم ہوتے چلے گئے۔ خوشامد اور چاپلوسی کی قیمت چڑھتی اور حق پرستی و راست بازی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ایماندار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے بے تعلق ہو گئے اور عوام کا حال یہ ہو گیا کہ کسی شاہی خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ باقی نہ رہا۔ ایک کو ہٹانے کے لیے جب دوسرا آیا تو انہوں نے مدافعت میں انگلی تک نہ ہلائی اور گرنے والا جب گرا تو انہوں نے ایک لات اور رسید کر کے اسے زیادہ گہرے گڑھے میں پھینکا۔ حکومتیں جاتی اور آتی رہیں‘ مگر لوگوں نے تماشائی سے بڑھ کر اس آمد و رفت کے منظر سے کوئی دلچسپی نہ لی۔

4۔ خدا اور خلق کے سامنے جواب دہی
چوتھا اصول‘ جو اس تیسرے اصول کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا تھا‘ یہ تھا کہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک خدا کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے‘ اس کے شدید احساس سے خلفائے راشدینؓ پر دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہو گیا تھا اور جہاں تک خلق کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے‘ وہ ہر وقت‘ ہر جگہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ سمجھتے تھے۔ لیکن بادشاہی دور کے آتے ہی جواب دہ حکومت کا تصور ختم ہوگیا۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا خیال چاہے زبانوں پر رہ گیا ہو‘ مگر عمل میں اس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔ رہی خلق کے سامنے جوابدہی‘ تو کون مائی کا لال تھا جو ان سے جواب طلب کر سکتا۔ وہ اپنی قوم کے فاتح تھے۔ مفتوحوں کے سامنے کون فاتح جواب دہ ہوتا ہے۔ وہ طاقت سے برسرِ اقتدار آئے تھے اور ان کا نعرہ یہ تھا کہ جس میں طاقت ہو وہ ہم سے اقتدار چھین لے۔ ایسے لوگ عوام کا سامنا کب کیا کرتے ہیں اور عوام ان کے قریب کہاں پھٹک سکتے تھے۔

5۔ بیت المال۔ ایک امانت
پانچواں اصول اسلامی دستور کا یہ تھا کہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے‘ جس میں کوئی چیز حق کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ سے آنی نہ چاہیے اور جس میں سے کوئی چیز حق کے سوا کسی دوسری راہ میں جانی نہ چاہیے۔ خلیفہ کا حق اس مال میں اتنا ہی ہے جتنا قرآن کی رو سے مال یتیم میں اس کے ولی کا ہوتا ہے۔ خلیفہ اس کی ایک ایک پائی کے آمد و خرچ پر حساب دینے کا ذمے دار ہے اور مسلمانوں کو اس سے حساب مانگنے کا پورا حق ہے۔

6۔ قانون کی حکومت
چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھا کہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسولؐ کے قانون) کی حکومت ہونی چاہیے۔ کسی کو قانون سے بالاتر نہ ہونا چاہیے۔ کسی کو قانون کے حدود سے باہر جا کر کام کرنے کا حق نہ ہونا چاہیے۔ انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہونا چاہیے اور عدالتوں کو انصاف کرنے کے لیے ہر دباؤ سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔

7۔ حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات
مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات‘ اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے درمیان نسل‘ وطن‘ زبان وغیرہ کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ قبیلے اور خاندان اور حسب و نسب کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ تھی۔ خدا اور رسولؐ کے ماننے والے سب لوگوں کے حقوق یکساں تھے اور سب کی حیثیت برابر تھی۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح اگر تھی تو سیرت و اخلاق اور اہلیت و صلاحیت‘ اور خدمات کے لحاظ سے تھی۔ لیکن خلافت کی جگہ جب بادشاہی نظام آیا تو عصبیت کے شیاطین ہر گوشے سے سر اٹھانے لگے۔ شاہی خاندان اور ان کے حامی خانوادوں کا مرتبہ سب سے بلند و برتر ہو گیا۔ ان کے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر ترجیحی حقوق حاصل ہو گئے۔ عربی اور عجمی کے تعصبات جاگ اٹھے اور خود عربوں میں قبیلے اور قبیلے کے درمیان کش مکش پیدا ہو گئی۔ ملتِ اسلامی کو اس چیز نے جو نقصان پہنچایا اس پر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔

امام حسینؓ کا مومنانہ کردار
یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کی ولی عہدی تغیرات کا نقطۂ آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہو گئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا‘ اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بتمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں‘ مگر ہر صاحبِ بصیرت آدمی جان سکتا تھا کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اسی لیے امام حسینؓ اس پر صبر نہ کر سکے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ مگر امامؓ نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کر کے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں‘ جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے، دین اور ملت کے لیے وہ آفت عظمیٰ ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔ حسین ابن علیؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا‘ اسی لیے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔
نوٹ:یہ تقریر لاہور میں شیعہ سنی حضرات کی ایک مشترکہ نشست میں کی گئی تھی‘ جو ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور کی اشاعت ماہ جولائی 1960ء میں شائع ہوئی۔