کچھ پڑھنا بھی چاہیے

443

عبدالکریم کریم عابد جسارت کے مدیر رہے ہیں بہت ہی اعلیٰ انسان تھے جب بھی اسلام آباد آتے ان سے طویل نشستیں ہوتیں، بہت کچھ ان سے سیکھنے کو ملا۔ برصغیر کی تاریخ، پاکستان کی سیاسی تاریخ اور سیاسی شخصیات سے متعلق ان کی معلومات کمال کی تھیں۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ بندہ ناچیز سے بہت ہی پیار کرتے تھے۔ عبد القادر حسن، مسکین حجازی، الطاف حسن قریشی، عطاء الرحمن، مجیب الرحمن شامی جیسے لوگ ان کے ہم عصر رہے ہیں۔ ان کے صاحب زادے سلمان عابد نے ایک کتاب کی رونمائی کی تھی کتاب کا عنوان تھا عبد الکریم عابد ایک عہد ایک شخص۔ یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ مرحوم بہت ہی کمال کے رپورٹر بھی تھے اور نہایت ذمے دار جیتے جاگتے مدیر بھی۔ پرانی بات ہے ایک بار اسلام آباد آئے تو بہت سی باتیں کیں اور کامیابی کے نسخے بھی بتائے ان کی ایک کہانی آج تک یاد ہے۔ شعبہ صحافت ہو یا کوئی کاروبار، اس کے لیے یہ کہانی مفید بھی ہوسکتی ہے اور کامیابی کی ضمانت بھی۔

ایک ملاقات میں ان سے پوچھا کہ سر کامیاب کیسے بنا جاسکتا ہے۔ بہت ہی پیار سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کچھ یوں گویا ہوئے ’’کچھ مینیجرز اور رہنما مختلف پیشوں میں کامیابی کی سیڑھی اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں تیز رفتاری سے چڑھتے ہیں اور بعض دیگر افراد اکثر راستے میں نچلے حصے پر ہی پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ تین میں سے ایک کمپنی ناقص قیادت کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہے۔ دیگر مینیجرز اپنی کمپنیوں کو نمایاں طور پر زیادہ منافع حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ صورت حال کاروباری کامیابی میں موثر قیادت کے اہم کردار کو نمایاں کرتی ہے، موثر کیریئر کی کامیابی میں فرق کئی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان عوامل میں شخصیت کی قسم اور رہنماؤں اور مینیجرز کی عادات بھی شامل ہیں۔ شخصیت کی کچھ خصوصیات اور عادات ایسی ہیں جو کیریئر کی کامیابی میں رکاوٹ یا خلل ڈال سکتی ہیں۔ ان میں نمایاں عادات یہ ہیں۔ عام طور پر سائنسی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ شخصیت کی خصوصیات کیریئر کے نتائج پر مثبت یا منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ سائنسدانوں نے اس بات کا مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح شخصیت کا ملازمتوں سے تعلق ہے اور انہوں نے شخصیت کی ان خصوصیات کا ذکر کیا ہے جو کیریئر کی کامیابی کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر تحقیق کے ایک حصے میں بتایا گیا ہے کہ امید پرستوں میں مایوسیوں کے مقابلے میں تناؤ کی سطح کم ہوتی ہے اور وہ مایوسیوں کے مقابلے میں کامیابی کی سیڑھی تیزی سے چڑھتے ہیں۔ پرامید نقطہ نظر کے ساتھ نئے سیلز ملازمین بھی پہلے دو سال میں مایوسیوں کے مقابلے میں 37 فی صد زیادہ لائف انشورنس فروخت کرتے ہیں۔ ایکسٹرو ورٹس عموماً تنخواہوں، پروموشنز اور اپنے مجموعی کام کے کردار سے زیادہ مطمئن ہوتے ہیں۔ ایسے لیڈر جو مزاج میں تبدیلی، اضطراب، چڑچڑاپن، خوف اور مایوسی کا شکار ہوتے ہیں ان کا اپنے کیریئر سے مطمئن ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ کشادگی کا کیریئر کی سیڑھی پر چڑھنے میں فائدہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف تنگ نظری کیریئر کی سیڑھی پر سب سے بڑی ذاتی رکاوٹ بن کر سامنے آتی ہے۔ کشادگی، جذباتی استحکام اور ایمانداری کامیابی کے حصول اور ملازمت یا کیرئیر میں آگے بڑھنے کے لیے بنیادی شرائط ہیں۔ دوسری طرف ناامیدی یا مینیجر کی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں نفسیاتی صحت اور ذہنیت اس کی کھلے پن کی حد سے زیادہ وزن رکھتی ہے۔ اور کہا کہ ایسی پانچ عادات ہیں جو لیڈر شپ کیڈرز کے کیرئیر کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔ ان میں سب سے پہلا نمبر وقت کی قدر کرنا ہے۔ پھر مثال دی کہ کامیاب کمپنی کے مالک اپنا 70 فی صد وقت معمول کے کاموں میں صرف کرتے ہیں اور ایسے اسٹرٹیجک اقدامات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں جن کو جدت اور کامیابی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ پھر کہا کہ ترجیحات کا تعین کرنا، جو بھی شخص اپنے آپ کو کام سے مغلوب پاتا ہے وہ اکثر ترجیح دینے میں ناکام رہتا ہے۔ مینیجر کے پاس ہر کام کرنے کے لیے اتنا وقت نہیں ہوتا ہے اور اگر اس کا وقت بہت کم ہو جائے تو تمام ترقی رک جائے گی۔ کچھ بات کہتے کہتے رک گئے اور کہا ان سب سے اہم بات کام سپرد کرنے سے گریز کرنا ہے۔ ہر ادارے کے لیڈرکو چاہیے کہ وہ ایک اچھی ٹیم بنائے اور اپنے ارکان پر بھروسا کرے۔ کام سپرد کرنا موثر طریقے سے نتائج لینا یہ کاروبار کی طویل مدتی کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ جدت کو اہمیت دینا، اسے دیکھتے رہنا، انفرادی طور پر اپنے تجربات، تخلیقی صلاحیتوں اور تعاون کے لیے وقت مختص کرنا۔

یہ بات انہوں نے اس وقت کہی کہ جب کسی کو اس کا علم ہی نہیں تھا کہتے تھے کہ مصنوعی ذہانت کا دور آنے والا ہے۔ سچی بات ہے ان کی یہ بات اس وقت سمجھ میں نہیں آئی تھی کہتے تھے کہ مستقبل چین کے ہاتھ میں جارہا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں چین جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا استعمال کیسے بڑھ رہا ہے واقعی یہ بات درست ہے کہ جدید طریقہ کار کو نافذ کرنے سے پروجیکٹ مینجمنٹ کی کارکردگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مائیکرو مینجمنٹ کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ کہتے تھے اس سے کسی بھی ادارے ملازمین دب کر رہتے ہیں ابھر نہیں سکتے، ان کی صلاحتیں دبی رہتی ہیں، کسی بھی کاروبار کی ترقی کے لیے ملازمین کو خود مختار بنانا بہت ضروری ہے۔ یہ بات مجھے اس وقت سمجھ میں آئی، جب پندرہ سولہ سال قبل مجھے ملک کے الیکٹرونک میڈیا کے اداروں کے سربراہوں اور نمایاں ترین افراد کی ایک میٹنگ میں شریک ہونے کا موقع ملا یہ میٹنگ تین روز رہی۔ ایک میڈیا ہائوس کے ذمے دار کا فون ایک دن بھی نہیں بجا۔ میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ کیا آپ کے ادارے میں کوئی کام نہیں ہورہا؟ بولے کیوں؟ میں نے کہا کہ تین روز ہوگئے ہیں آپ کا فون ایک دن بھی بجا کہ کیا کرنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تقسیم کار کی ہوئی ہے اور ہر شخص کو اس کا کردار اور اختیار دیا ہوا ہے جب کوئی مسئلہ اس حد سے اوپر کا ہوگا تو مسئلہ کے حل کے لیے مجھے کوئی فون کرے گا۔ محترم جناب عبدالکریم عابد کی یہ بات مجھے تب سمجھ میں آئی۔ واہ عابد صاحب کیسے زیرک انسان تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین