طاقت اور مقبولت کی آنکھ مچولی

542

پاکستان میں طاقت اور مقبولیت کی آنکھ مچولی روز اوّل سے جاری ہے۔ کئی بار یہ آنکھ مچولی خونیں اور کئی بار خوفناک حادثاتی رنگ اختیار کر جاتی ہے مگر ماہ وسال کی طویل گردش کے باوجود یوں لگتا ہے کہ وقت اور حالات پاکستان کے لیے ٹھیر کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان آج بھی لیاقت علی خان کے دور میں ہے۔ وہی حکمت عملی وہی ادائیں، دور اندیشی کے بجائے اپنا وقت اچھے انداز سے گزارنے کی وہی روش آج تک جاری ہے۔ قوم پر ایوب خان کی روح سایہ فگن ہو چکی ہے۔ مادر ملت فاطمہ جناح جو قوت کے مقابل مقبولیت کی علامت تھیں پر رکیک اور ذاتی حملوں کا وہی انداز، عوام کے حوصلے توڑنے اور ان کو نیچا دکھانے کا وہی طریقہ گویا کہ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ ایک فرد یا افراد کے ایک گروہ کا مفاد قومی مفاد کہلاتا ہے اور اس قومی مفاد کے خلاف کام کرنے کے الزام میں کوئی بھی معتبر نامعتبر قرار پا سکتا ہے۔ جمہوریت اور جمہوریہ کہلانے والے ملکوں میں عوام ہی اس بات کے حقدار ہیں کہ وہ کسی کو اپنی پرچی سے معتبر سے نامعتبر بنائیں۔ پاکستان میں عوام فاطمہ جناح کو معتبر سمجھتے ہیں اور ایوب خان خود کو معتبر بنا کر پیش کر تے ہیں اور اپنا اعتبار عوام کے حلق کے اندر زبردستی اُنڈیلا جاتا ہے۔ ایوب خان کی طرح طاقت اپنے بغل میں کنونشن مسلم لیگ کا ایک بغل بچہ دبائے ایک سیاسی چہرہ بنائے رکھتی ہے۔ موجودہ دور میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی چہرے کنونشن لیگ کا رول ملک میں سویلین بالادستی کے عظیم علمبردار اور نیلسن منڈیلا ثانی جناب نوازشریف کی سرپرستی میں ن لیگ ادا کر رہی ہے۔

طاقت کا تصور ِ پاکستان اپنے فیصلوں کی اطاعت سے شروع ہو کر وہیں پر ختم ہوتا ہے۔ اس تصور پاکستان میں مقبولیت کی قبولیت کم ہی ہوتی ہے۔ بھاری مینڈیٹ والے نوازشریف اس میں قبول نہیں ہوتے ہاں آج کی طرح خاموش کھوئے کھوئے اور بے ضرر اور عوامی مقبولیت سے محروم نوازشریف ایک کامیاب شراکت دار کے طور پر قبول ہوتے ہیں۔ طاقت اور مقبولیت کے ضابطوں کی کتاب میں سیاست دانوں کا کردار محض پتلی تماشے کے کسی کردار کا سا ہوتا ہے۔ وہ اسی وقت تک اپنا کرتب دکھاتے ہیں جب تک ڈوری کے آخری سرے پر جمے ہاتھ ایک مخصوص انداز سے حرکت پزیر رہتے ہیں جونہی یہ حرکت تبدیل ہوتی ہے تو سیاسی کردار یا تو جیل میں نظر آتے ہیں یا رضا کارانہ طور پر مائنس ہو کر دور دیس سدھار جاتے ہیں۔ ان کا جہاز لمحہ ٔ موجود کا بوجھ لیے اور سسٹم کو پھلتا پھولتا چھوڑ کر پاکستان کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے۔ حسین شہید سہروردی اور میاں نوازشریف اس انداز سے مائنس ہوکر بیرونی دنیا کا رخ کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو شہید کے معاملے میں ضیاء الحق اور جنرل مشرف دونوں یہی کرتے رہے ہیں۔ سسٹم کو سکھ کا سانس لینے کے لیے انہیں بھی باہر روانہ کیا جاتا رہا مگر ہر دوبار وہ بہادرانہ انداز میں واپس آتی رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان اور فاطمہ جناح کے معاملے میں یہ کھیل خونیں اور حادثاتی رنگ بھی اختیار کرتا رہا۔ کھیل کے تیسرے کردار تاریخ میں محمد خان جونیجو، میرظفر اللہ جمالی اور چودھری شجاعت حسین اور انوار الحق کاکڑ کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ جو آنے کے بعد مکھن سے بال کی طرح نکال دیے جانے پر بھی حرف شکایت لبوں پر نہیں لاتے۔ یہ ’’اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی گئے‘‘ کا نمونہ ہوتے ہیں۔ آتے تو اپنی خوشی سے ہیں مگر جاتے وقت بھی ’’نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ‘‘ کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ کردار شاید زیادہ حقیقت پسند ہیں کہ جو تراشیدم پرستیدم شکستم کے آغاز وانجام پر زیادہ شاکی نہیں ہوتے۔

عمران خان اس چھہتر سالہ کھیل میں آؤٹ آف سلیبس ٹپک پڑے ہیں۔ اقتدار سے برطرفی کے وقت ان کے سامنے دو راستے تھے نوازشریف اور حسین شہید سہروردی کی طرح علاج کے نام پر بیرون ملک سدھار جاتے اور دریائے ٹیمز کے کنارے اپنے بیٹوں قاسم اور سلمان کے ساتھ سرد شاموں کی واک کا لطف لیتے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ جونیجو جمالی اور شجاعت کی طرح سرجھکا کر بنی گالہ جا بیٹھتے۔ محمد خان جونیجو جب برطرف ہونے کے بعد اپنے گائوں سندھڑی چلے گئے تو ضیاء الحق کے مرشد سردار عبدالقیوم خان کا ایک تبصرہ مشہور ہوا تھا ’’محمد خان جونیجو اب سندھڑی جا کر آم بیچیں گے حکومت چلانا ان کے بس میں نہیں تھا‘‘۔ عمران خان سرجھکائے بنی گالہ جا بیٹھے ہوتے تو اسی طرح کے تبصرے آج تک ان کا پیچھا کر رہے ہوتے۔ عمران خان نے یہ دونوں راستے اختیار کرنے سے انکار کیا اور میدان میں کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔ عوام کی اپنی ہی نفسیات ہوتی ہے اور ان کے تحت الشعور میں ایک بہادر شخص کی شبیہ موجود ہوتی ہے جو بالادست نظام کے خلاف کھڑا ہو اسے مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ نوازشریف کی حقیقی عوامی مقبولیت کا دور اس وقت شروع ہوا تھا جب انہوں نے نذیرناجی کا ایک تحریر کردہ جملہ قوم سے خطاب کے دوران پڑھا تھا ’’استعفا نہیں دوں گا، ڈکٹیشن نہیں لوں گا، اسمبلی نہیں توڑوں گا‘‘۔ یہ الگ بات کہ اب لندن کی محفلوں میں انہوں نے جو کھچڑی پکائی وہ ان کی برسوں کی ریاضت کو دیمک کی طرح چاٹ گئی اور اب وہ ناصر کاظمی کے اس شعر کی تصویر بنے اپنی مقبولیت کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں

جو قافلہ میرا ہم سفر تھا
مثالِ گردِ سفر گیا وہ

عدت اور القادر جیسے بے سروپا کیسز میں عمران خان کی قید اس بات کا ثبوت ہے کہ ان پر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا کوئی الزام عائد نہ کیا جا سکا۔ جب کوئی وجہ نہ رہی تو پھر بے وجہ قید رکھنے کا سامان کیا گیا اور عدت اور القادر اسی کا نام ہیں۔ عدت کیس کی طرح ان کیسز کا عدالتوں سے اُڑ جانا نوشتہ ٔ دیوار ہے کیونکہ پاکستان کی عدلیہ نے جسٹس منیر کے راستے پر چلنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے۔ میاں نوازشریف کو دو بار تاریخ نے مقبول سے مقبول عام بننے کے مواقع دیے مگر وہ ہر دوبار بیرون ملک جانا پسند کرتے رہے اور عوام کو کچھ بتانے کے بجائے بے خبر عوام سے ہی اُلٹا پوچھتے رہے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ عوام کو محلاتی سازشوں کا کیا پتا یہ بتانا تو قائدکا کام ہوتا ہے کہ اس پر کیا بیتی اور تب عوام اس کو اپنے تصور میں موجود بہادر کردار کے خانے میں بٹھاتے ہیں۔ طیارہ سازش کیس کی جس رسی سے گھبرا کر نوازشریف بیرون ملک سدھارتے رہے وہی رسی نو مئی کے نام پر عمران خان کے بیرک کے باہر بھی آویزاں ہے۔ اس کا نام ہے غداری میں سزائے موت۔ عمران خان اس رسی سے گھبرانے کے بجائے اسے یکسر نظر انداز کیے بیٹھے انکار کے بعد انکار کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں دھان پان سی لڑکی صنم جاوید کو سیاست کے میدان میں دیو قامت بنانے کا ایک عمل نادانستگی میں جاری ہے۔ موروثی سیاست کے علمبردار اور اگلی تین نسلوں کی حکمرانی کی منصوبہ بندی کیے بیٹھے ہوئے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ صنم جاوید جیسی مڈل کلاس خواتین کو جیلوں میں رکھ کر نسل نو کو بہادری کے نئے رول ماڈلز اور آئیڈیلز دے رہے ہیں۔ اس طرح وہ لاشعوری طور پر قوم کو عوامی لیڈر شپ فراہم کر رہے ہیں دوسرے لفظوں میں وہ موروثی سیاست کے فلک بوس مجسمے کو صنم جاوید کی کنکریاں مار کر خود اپنے ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کررہے ہیں۔