سیدنا حسین ابن علیؓ، نواسۂ رسولؐ، وہ شخصیت ہیں جن کی زندگی اور قربانی میدان کربلا میں انصاف، حقانیت اور ظلم کے خلاف جدوجہد کی روشن مثال ہے۔ کربلا کے واقعات تاریخ میں جلی حروف میں درج ہیں، جو بہادری، استقامت، اور ظلم کے مقابلے میں آخری قربانی کا دائمی پیغام دیتے ہیں۔ بلاشبہ سیدنا حسینؓ کا موقف جو اسلام کے اصولوں میں گہرائی سے جڑا ہوا تھا، سچائی اور انصاف کی ایک پکار تھا، جو تمام انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ کربلا محض ایک میدان جنگ نہیں تھا بلکہ یہ ایک اخلاقی میدان تھا، جہاں انصاف اور سچائی کے اصول بے مثال بہادری اور ناقابل تسخیر ایمان کے ساتھ لڑے گئے تھے۔ سیدنا حسینؓ کا یزید کی بیعت سے انکار ظلم کے خلاف ایک زبردست احتجاج تھا۔ نبی کریمؐ کے نواسہ اور ان کے ساتھیوں نے یقینی موت کے باوجود ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، شہادت کو غلامی پر ترجیح دی۔ یہ قربانی ذاتی شہرت کے لیے نہیں تھی بلکہ اسلامی اقدار اور انسانیت کی عزت و وقار کے تحفظ کے لیے تھی۔ کربلا میں بہائے گیا خون، اس امر کی نشاندہی ہے کہ سچائی کی جدوجہد اکثر بڑی قربانیوں سے بھری ہوتی ہے۔
دنیا بھر کے مسلمان کربلا کے واقعات کو بالخصوص ماہ محرم میں مختلف تقریبات اور مذہبی اجتماعات کے ذریعے یاد کرتے ہیں۔ یہ تقریبات سیدنا حسینؓ کی قربانی کی تعظیم اور ان کے شہادت سے حاصل ہونے والے گہرے اسباق پر غور کرنے کے لیے منعقد کی جاتی ہیں۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ ہم غور کریں کہ کیا ہم سیدنا حسینؓ کے فلسفے کو واقعی اپنی زندگی میں شامل کر رہے ہیں؟ کیا ہم ان کی سچائی، انصاف اور مضبوط ایمان کی روح کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں عملی جامہ پہنا رہے ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف ویسے ہی مضبوطی سے کھڑے ہوتے ہیں جیسا کہ وہ کھڑے ہوئے تھے، یا ہم ذاتی مفاد اور آسانی کے خاطر اپنے عمل کو تبدیل کر لیتے ہیں؟
مسلم دنیا کی موجودہ حالت سیدنا حسینؓ کے اصولوں پر ہماری عملداری کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتی ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑوں سے لے کر دنیا کے دیگر حصوں میں مسلمانوں کو درپیش مشکلات تک، کربلا کا فلسفہ ہماری توجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان علاقوں میں جارحیت اور مصیبتیں اس ظلم کی بازگشت ہیں جس کے خلاف سیدنا حسینؓ کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن مسلم دنیا کا اجتماعی جواب اکثر منتشر اور کمزور نظر آتا ہے۔ کیا ہم نے کربلا کے اسباق کو بھلا دیا ہے؟ کیا ہم نے مظلوم کی حمایت کرنے اور ظالم کے خلاف کھڑے ہونے کی پکار کو نظر انداز کر دیا ہے، چاہے اس کی ذاتی قیمت کچھ بھی ہو؟
فلسطینیوں کی حالت، جو دہائیوں سے قبضے اور تشدد کا شکار ہیں، ظلم کی ایک واضح مثال ہے جو کربلا کی روح کا مطالبہ کرتی ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کی قربانی کمزوروں کا دفاع کرنے اور انصاف قائم کرنے کی پکار تھی، لیکن فلسطینی جدوجہد کے جواب کو اکثر سیاسی مصلحتوں اور بین الاقوامی دباؤ کی بنا پر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کشمیر کے لوگ، جو طویل عرصے سے تنازعے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہیں، ان لوگوں کی تکلیف کی عکاسی کرتے ہیں جن کے ساتھ سیدنا حسینؓ کھڑے ہوتے۔ پھر بھی، عالمی مسلم کمیونٹی کا جواب اکثر سیاسی مصلحتوں اور یکجہتی کی کمی کی بنا پر رکاوٹوں کا شکار ہوتا ہے۔
ان چیلنجوں کے باوجود، مسلم کمیونٹی میں کچھ معاصر تحریکیں اور افراد سیدنا امام حسینؓ کے فلسفے کو زندہ کرنے اور عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علماء، کارکنان، اور عام افراد ان کی زندگی سے تحریک لے کر انصاف کی وکالت کرتے ہیں، ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، اور اخلاقی سالمیت کو برقرار رکھتے ہیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ کا پیغام لازوال ہے اور عالمگیر سطح پر قابل اطلاق ہے۔ کربلا میں ان کا موقف تاریخی اور ثقافتی حدود کو عبور کرتا ہے، اور تمام انسانیت کے لیے قیمتی اسباق فراہم کرتا ہے۔
کربلا کے اسباق ہمیں ذاتی امنگوں اور سیاسی حساب کتاب سے بلند ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ ہمیں سچائی اور انصاف کے قیام پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی تکلیف دہ ہی کیوں نہ ہو۔ سیدنا حسینؓ کی وراثت محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک راہنما اصول ہے جو ہماری کارروائیوں اور فیصلوں میں نظر آنا چاہیے۔ یہ ہمیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، ہمیں انصاف اور سچائی کو ہر چیز سے اوپر رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔
کربلا کے واقعات قیامت تک یاد رکھے جائیں گے، نہ صرف ایک تاریخی واقعے کے طور پر بلکہ ایک دائمی تحریک اور رہنمائی کے منبع کے طور پر۔ اس دن کی گئی قربانیاں انصاف کے لیے ایک بلاشبہ پکار ہیں، ہمیں ذاتی مفاد اور مصلحتوں سے بلند ہونے کی تلقین کرتی ہیں۔ جب ہم سیدنا حسینؓ کی وراثت کی تعظیم کرتے ہیں، تو آئیے ہم ان کے اصولوں کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کا عہد کریں، ظلم کے خلاف ثابت قدم رہیں، اور سچائی کی حمایت مضبوطی سے کریں۔
سیدنا حسینؓ کے گہرے اسباق اور معاصر مسلم عمل کے درمیان فرق کو پْر کرنے کے لیے ایک متنوع نقطہ نظر ضروری ہے۔ اس میں ان کے فلسفے کی گہرائی سے سمجھ بڑھانا، اخلاقی عکاسی اور روحانی نشوونما کے کلچر کو فروغ دینا، اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے اعمال کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہے۔ مذہبی رہنما اور علماء ان تعلیمات کو ایک ایسے انداز میں بیان کرنے اور پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو جدید حساسیتوں اور چیلنجوں سے ہم آہنگ ہو۔
بلا شبہ سیدنا حسینؓ کا فلسفہ ایک روشن مثال ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی سوچ اور طرز عمل کی رہنمائی کرتا ہے۔ ان کی قربانی ظلم کے خلاف ایک گہرا بیان اور سچائی اور انصاف کی دائمی طاقت کا ثبوت تھا۔ آئیے ہم ان اصولوں کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کا عہد کریں، مظلوموں کی حمایت کریں، اور ظلم کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہوں۔ صرف اسی صورت میں ہم سیدنا امام حسینؓ کی وراثت کا واقعی احترام کر سکتے ہیں اور ان کی قربانی کو نسلوں تک تحریک اور رہنمائی فراہم کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔