بیان حریتِ اسلامیہ اور سرِ حادثہَ کربلا

293

اقبال کا فارسی کلام

عقل می گوید کہ خود را پیش کن
عشق گوید امتحان خویش کن

مطلب: عقل کہتی ہے کہ اپنے آپ کو آگے بڑھا یعنی دولت، عزت، حکومت اور شہرت حاصل کر۔ عشق کہتا ہے کہ آگے بڑھانے کا کیا مطلب اپنے آپ کو آزمانا چاہیے۔

عقل با غیر آشنا از اکتساب
عشق از فضل است و با خود در حساب

مطلب: عقل کا سارا زور خودنمائی پر ہے جبکہ عشق اپنا محاسبہ خود کرتا ہے۔ عقل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسب سے حاصل کی جاتی ہے اور مشق سے بڑھ سکتی ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اسے غیر سے آشنائی پیدا کر نے میں تامل نہیں ہوتا (بشرطیکہ کوئی فائدہ پہنچنے کی امید ہو)۔ اس کے برعکس عشق صرف خدا کے فضل پر موقوف ہے۔ غیر سے اسے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ ہروقت اپنے ہی حساب اور جانچ پڑتال میں مصروف رہتا ہے۔

عقل گوید شاد شو آباد شو
عشق گوید بندہ شو آزاد شو

مطلب: عقل کہتی ہے کہ عیش و عشرت اور موج مستی میں کھو کر زندگی گزار۔ جبکہ عشق کہتا ہے کہ اللہ کا فرمانبردار بندہ بن جا اور ہر غلامی سے آزاد ہو کر زندگی گزار۔

عشق را آرام جان حریت است
ناقہ اش را ساربان حریت است

مطلب: عشق کے لیے حریت آرام، سکون اور راحت کا باعث ہے۔ اس کے ناقے (اونٹنی) کی ساربا ن حریت ہے۔

آن شنیدستی کہ ہنگام نبرد
عشق با عقل ہوس پرور چہ کرد

مطلب: تو نے سنا کہ لڑائی کے وقت عشق نے ہوس پرور عقل سے کیا سلوک کیا (لڑائی سے مراد جنگ کربلا ہے۔ عشق کے علمدار سیدنا امام حسینؓ ہیں اور عقل ہوس پرور یزید کو کہا گیا ہے)

آن امام عاشقان پور بتول
سرو آزادی ز بستان رسول

مطلب: وہ عاشقوں کے امام اور پیشوا سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے فرزند ارجمند جنہیں رسول اللہ کے باغ میں سرو آزاد کی حیثیت حاصل تھی۔

اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر

مطلب: ان کے والد ماجد سیدنا علیؓ بسم اللہ کی ب تھے اور فرزند یعنی امام حسینؓ قرآن مجید کی آیت، وفدینہ بذبح عظیم کا مطلب و مفہوم بن گئے۔

بہر آن شہزادہ ی خیر الملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل

مطلب: سب سے بہتر امت یعنی ملت اسلامیہ کے اس شہزادے کی شان یہ تھی کہ رسول خاتم کا دوش مبارک اس کے لیے اچھی سواری قرار پایا۔

سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی این مصرع از مضمون او

مطلب: عشق غیور سیدنا حسینؓ ہی کے خون سے سرخرو ہوا۔ انہیں کے مضمون سے اس مصرع میں شوخی پیدا ہوئی۔ عشق کو غیور اس لیے کہا کہ وہ باطل کے مقابلے میں دبنا یا پیچھے ہٹنا گوارا ہی نہیں کر سکتا۔

درمیان امت ان کیوان جناب
ہمچو حرف قل ہو اللہ در کتاب

مطلب: امت کے درمیان ان کی حیثیت وہی تھی جو سورہ اخلاص کو قرآن کے درمیان حاصل ہے۔ یعنی جس طرح سورہ اخلاص کو قرآن مجید میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے اسی طرح امام حسینؓ کو ملت اسلامیہ میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔

موسٰیؑ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید

مطلب: موسٰیؑ اور فرعون ، شبیر اور یزید یہ دو قوتیں ہیں جو زندگی سے ظاہر ہوئیں۔ ان میں سیدنا موسٰیؑ اور امام حسینؓ حق کے علمدار ہیں اور فرعون اور یزید نے باطل کی پاسداری کی۔ دونوں قوتیں ابتدا ہی سے چلی آ رہی ہیں ان کے درمیان کشمکش بھی ہوتی رہی ہے۔

زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

مطلب: تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ حق قوت شبیری سے زندہ ہے۔ سیدنا موسٰیؑ اور سیدنا حسینؓ جیسے بزرگ اس کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ باطل آخر حسرت کی موت کا داغ بن جاتا ہے۔ (حق کا بول بالا قوت خیر سے ہوتا ہے جبکہ باطل قوتوں کا انجام ذلت و خواری ہے۔)۔