دادو(نمائندہ جسارت) سندھ میں سیلاب کی پیشگوئی کے بعد دادو عوامی فورم کے رہنمائوں کا ایم این وی ڈرین اور ایف پی بند کا دورہ، بندوں کی پشتیں انتہائی کمزور، ایم این وی ڈرین کو مضبوط نہ کیا گیا تو دادو کو بھی خطرہ ہوگا، عوامی فورم دادو میں 2022ء کے سیلاب میں تباہ شدہ ایم این وی ڈرین کی بحالی نہ ہونے اور ایف پی بچائو بند کے کام میں سست روی اور کرپشن کے خلاف دادو عوامی فورم کے وفد نے رہنماؤں نے منچھر جھیل کی زیرو پوائنٹ سے حمل جھیل تک ایم این وی ڈرین، سپریو بند، ایف پی بند کا دورہ کرکے جائزہ لیا ہے بندوں کی مرمت ناہونے پر دادو عوامی فورم کے رہنماؤں نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے حفاظتی بندوں کے مرمتی کام میں کرپشن پر نوٹس لے کر نیب سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دادو عوامی فورم کے رہنما عاشق علی زئونر، گلن بھنڈ، وکیل محمد رمضان خشک، عبدالحکیم لغاری وکیل گلزار عالمانی، جی ایم پنہور ضمیر کوریجو، سرائی علی اکبر پنہور، سکندر چھجڑو، غلام حسین لونڈ، نبی بخش ہالیپوٹو موریل پنہور عابد ببر سون بھنڈ دلدار علی زئونر و دیگر کا کہنا تھا کہ سال 2022 کے سیلاب میں منتخب نمائندوں اور افسران کی نااہلی کی وجہ سے تحصیل کے این شاہ میہڑ اور جوہی ڈوب گیا جس میں 150 سے زائد افراد جاںبحق ہوئے 7 لاکھ کے آبادی متاثر ہوئی 7 ہزار خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہوئے لاکھوں مالیت کی فصلیں بھی ڈوب گئی مگر اب تک سیلاب کی تباہ کاری سے بچنے کے لیے ایم این وی ڈرین, سپریو بند, ایف پی بند کا مرمتی کام شروع نہ ہو سکا ہے ایم این وی ڈرین جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے سیلاب میں لگے شگاف بہی پر نہیں کیے گئے ہیں دادو عوامی فورم کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے ملک بھر میں تیز بارشوں کی پیشگوئی اور این ڈی ایم اے نے ممکنہ سیلاب کے پیش نظر انتظامات اٹھانے کی وارننگ بہی دی ہے مگر محکمہ آبپاشی , ضلعی انتظامیہ اور منتخب نمائندوں کی جانب سے بندوں کی بحالی کے لیے مرمت کا کام شروع نہی کیا گیا ہے دادو عوامی فورم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر ہنگامی بنیاد پر بندوں کے پشتوں کو مضبوط نہیں کیے گئے تو 2022 کے سیلاب کی طرح ممکنہ سیلاب سے بڑی تباہی ہو گی جس پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نوٹس لیے کر اور ہنگامی بنیادوں پر ایم این وی ڈرین, سپریو بند, ایف پی بند کے حفاظتی پشتوں کو مضبوط کیا جائے دوسری جانب دادو عوامی فورم احتجاج کے ساتھ قانونی طور پر شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے عدالت سے بہی رجوع کیا جائے گا۔