ہر سال کی طرح اس سال بھی محرم الحرام کا مہینہ آچکا ہے ہر طرف شہادت امام حسین کے تذکرے ہیں یہ ضروری بھی ہے۔ کامیاب قومیں اپنے اسلاف کے شاندار کارناموں کو اپنی نئی نسلوں تک انہی مواقع کے ذریعے منتقل کرتی ہیں۔ اسلاف اور بزرگوں کے کارناموں کو نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جاتا ہے اور ان کے تذکرے کرکے آنے والی نسلوں کی سیرت و کردار کی تعمیر کی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم بحیثیت امت اپنے اس قیمتی اثاثے سے غفلت کے مجرم بن رہے ہیں جس کی وجہ سے اپنا شاندار ماضی رکھنے کے باوجود امت مسلمہ ساری دنیا میں ظلم وستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔
سیدنا حسینؓ اور آپ کے رفقاء کی قربانیوں کے واقعات ممبر و محراب سے اور مجالس میں بیان کیے جاتے ہیں۔ وہ اتنے جوش و خروش سے بیان کیے جاتے ہیں کہ سامع کو سر دھنے سے ہی فرصت نہیں ملتی سامع کو اتنی مہلت ہی نہیں دی جاتی کہ وہ قربانی کے مقصد کو سمجھ سکے لہٰذ مواقع آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ امت ایک calibrating امت ہوگئی ہے ہم بس ان دنوں کو محض مناتے ہیں۔ ان واقعات میں غور وفکر معدوم ہوگئی ہے۔ جب کسی قوم کا اس کے شاندار ماضی سے رشتہ کاٹ دیا جائے تو وہ بھیڑ بن جاتی ہے اور بھیڑ کوئی کارنامہ انجام دینے کے قابل نہیں ہوتی۔
ویسے تو امت مسلمہ کی تاریخ قربانیوں سے روشن ہے جو اسلام کے ان سرفروشوں نے اسلام کے نظام کے تحفظ کے لیے اپنے خون سے رقم کی ہے۔ شہادت حسینؓ اپنے دامن میں ایک عظیم مقصد لیے ہوئے ہے۔ اگر اس ایک واقعے کے مقصد کو بھی اپنی نئی نسل تک ہم منتقل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو بتانا ہوگا کہ آخر وہ کیا مقصد امام حسینؓ کے پیش نظر تھا کہ جس کی خاطر وہ اپنے خاندان کے ساتھ اپنے شیر خوار بچّوں کے ساتھ میدان کربلا میں جدوجہد کا پیکر بنے ان کے سامنے قلت تعداد بے سروسامانی بھوک اور پیاس سے بلکتے بچے ان کا راستہ نہ روک سکے دوسری طرف یہ کہ اس جدوجہد میں ان کا خاندان بھی ان کے ساتھ پیکر صبر ثبات بنا۔ آپ اس سے بے نیاز تھے کہ آپ کی جدوجہد کا نتیجہ کیا ہوگا۔
کچھ نادان حضرات امت میں یہ بات پھیلاتے ہیں کہ امام حسینؓ کی جدوجہد کا مقصد کوفہ والوں سے بیعت لینے کے بعد اقتدار کا حصول تھا۔ ایسے لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ واقعہ کربلا کے وقت سیدنا حسینؓ کی عمر تقریباً پینسٹھ سال تھی۔ اگر آپ کو اقتدا حاصل کرنے کا یا امیر المومنین بننے کا شوق ہوتا تو آپ اپنی جوانی کی عمر میں سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کے زمانے میں اپنے لیے یا اپنے والد کے لیے حصول اقتدار کی جدوجہد کرتے تاکہ اقتدار آپ کے والد کو مل جاتا پھر اس کے بعد تو اقتدار آپ کے حصّے میں آہی جاتا مگر آپ کی ایسی کوئی کوشش کسی خلیفہ ٔ راشد کے دور میں نہیں ملتی۔ بلکہ کوئی مسلمان آپ جیسی عظیم شخصیت اور آپ کے خاندان والوں کے بارے میں دنیا کی اس چھوٹی سی حقیر چیز جس کا نام اقتدار ہے اس کے لیے جدوجہد کرنے اور پھر اس کے لیے اپنے اور اپنے اہل و عیال کی جانوں کی قربانی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جس طرح اسلامی عبادت روزہ بھوکا اور پیاسا رہ کر ہی ادا ہوسکتا ہے۔ تو کیا روزے کا مقصد ہی بھوکا پیاسا رہنا ہے؟ ایسا نہیں ہے بلکہ قرآن میں روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اقتدار اعلیٰ کا حق دار صرف اللہ ہے اس لیے اسی کے احکامات کو جاری کروانا، نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا اور بیت المال کو اللہ اور عوام کی امانت سمجھ کر عوام پر خرچ کرنا یہ خلیفہ یا امیر المومنین کے فرائض ہیں اگر یہ کام ریاست کا حکمران کررہا ہے تو ٹھیک ہے اگر یہ کام نہیں ہورہے ہیں تو پھر اقتدار کے حصول کی جدوجہد ہر مومن پر فرض ہوجاتی ہے۔ یہ تمام فرائض خلفاء راشدین نے بڑی دیانتداری سے ادا کیے لیکن یزید کی ولی عہدی کے بعد سیدنا حسینؓ کی بصیرت افروز نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ کے بجائے بادشاہ کا حق قرار پارہا ہے اب بادشاہ بجائے اللہ کے احکامات پر عمل کروانے کے اپنے احکامات عوام پر جاری کررہا ہے بیت المال اللہ اور عوام کی امانت کے بجائے بادشاہ کی ملکیت قرار پارہی ہے۔ ان تغیرات کا سدّباب کرنے کے لیے جدوجہد کرنا اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینا ایک مومن کا فرض ہے۔ یہی وہ مقصد تھا کہ ان تبدیلوں کے راستے کی دیوار بنا جائے اور دراصل یہی وہ فرض ہے جس کو امام عالی مقام نے کربلا کے میدان میں ادا کیا آپ نے دنیا میں اس کے نتیجے سے بے پروا ہوکر ایک مومنانہ کردار ادا کیا۔
موجودہ ملکی حالات جس میں دستور میں اقتدار اعلیٰ اللہ کا حق ہونے کے باوجود چند خاندانوں نے اس پر قبضہ کررکھا ہے، نیکیاں کرنا عوام کے لیے مشکل تر ہوتا جارہا ہے برائیوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں اور عوام کی دولت اور وسائل پر انہی اشرافیہ کا قبضہ ہے ایسے میں جس طرح امام حسینؓ نے اپنا مومنانہ کردار ادا کیا پاکستان کے عوا م کو بھی وہی کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے وقت اور حالات جس طرح کی جدوجہد کا تقاضا کرتے ہیں وہی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے اگر فلسطین کی جدوجہد دیکھی جائے تو وہاں اسی طرح کی جدوجہد وقت اور حالات کا تقاضا ہے اور پاکستان میں جس طرح جماعت اسلامی جدو جہد کررہی ہے کہ عوام کو بڑی تعداد میں اسلام آباد میں دھرنے کے لیے جمع کیا جائے یہی وقت کا نقاضا ہے۔