رمزِ قرآن از حسین آموختیم

478

علامہ اقبال نے اپنے فارسی دیوان ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں ’’درمعنی حریت ِ اسلامیہ وسرِّحادثہ ٔ کربلا‘‘ کے عنوان سے سیدنا حسین ؓ کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے، ہم اس نظم کے منتخب اشعار کا مفہوم اپنی ترتیب سے بیان کر رہے ہیں، علامہ اقبال امام عالی مقام کو فہم ِ قرآن، اِحیائے اَقدارِ دین، تسلیم ورضا، صبرو قناعت اور عزیمت واستقامت کے لیے معیار ومدار سمجھتے ہیں، اُن کے نزدیک آپ بے مثال ایثار واستقامت کا ایک ابدی استعارہ ہیں، چنانچہ وہ کہتے ہیں:

رمز قرآن از حسین آموختیم
ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم

یعنی میں نے قرآن کا رازحسین سے سیکھا اور اُن کی آتش ِ عشق سے کئی شمعیں روشن کیں اور کئی چراغ جلائے۔

اقبال کے بقول امت کے درمیان سیدنا حسینؓ کی مثال کتابِ الٰہی میں ’’قُل ھُوَ اللّٰہ اَحَد‘‘ کے کلمات جیسی ہے، وہ کہتے ہیں:

درمیاں اُمت آں کیواں جناب
ہمچو حرفِ قُل ھُو اللّٰہُ در کتاب

سیدنا حسینؓ نے عزیمت واستقامت کی راہ پر گامزن ہوکر بے مثال قربانیاں دیں، اپنی موجِ خون سے اَقدارِ حق کے اِحیاء سے ایک نیاگلستان آباد کیا اور تاقیامت ظلم واستبدادکے آگے سدِّراہ بننے والوںکے لیے مثالی کردار بنے، اقبال کہتے ہیں:

تا قیامت قطعِ استبداد کرد
موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد
بہر حق در خاک و خون غلطیدہ است
پس بنای لاالٰہ گردیدہ است

علامہ اقبال حق کو چراغِ مصطفوی اور باطل کو شَرار بولہبی سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چَراغِ مُصطفوی سے، شَرارِ بُولہبی

یعنی ازل سے آج تک حق وباطل کے مابین معرکہ بپا ہے، چراغِ مصطفوی سے شَرارِ بولہبی کی جنگ جاری ہے، علامہ اقبال نے ابولہب کی حقارت واضح کرنے کے لیے اُسے ایک معمولی سا شرارہ قرار دیا ہے اور عظمت ِ مصطفیؐ کے اظہار کے لیے اس شرارے کے مقابلے میں لفظ ِ ’’چراغ‘‘ استعمال کیا ہے جو دیرپا روشنی کا ایک استعارہ ہے، جبکہ شرارہ ایک لمحاتی اور عارضی چمک دکھا کر بجھ جاتا ہے، لیکن افسوس ہمارے دور میں تو بولہبی نے بھی چراغِ مصطفوی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، جمیل مظہری نے خوب کہا ہے:

کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی

علامہ اقبال سیدنا حسینؓ کو حق وباطل کی اسی جنگ کا استعارہ کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوتِ از حیات آید پدید
زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطل آخر، داغِ حسرتِ مِیری است

یعنی حق وباطل کی معرکہ آرائی کبھی موسیٰ وفرعون کی صورت میں جاری رہی، پھر ختم المرسلین خاتم النبیینؐ کے عہد ِ مبارک میں چراغِ مصطفوی اور شرار بولہبی کی صورت میں نظر آئی اور آپؐ کے بعد یہی معرکہ شبیر ویزید کی صورت میں بپا ہوا، الغرض حق وباطل ایک دوسرے کے مقابل ہمیشہ صف آرا رہتے ہیں، حق قوتِ شبیری سے زندہ ہے اورشاہی (باطل اقتدار) ظاہری فتح کے باوجود آخر کار داغِ حسرت بن کر رہ جاتا ہے۔ علامہ اقبال بتاتے ہیں: جب تک خلافت پر قرآن کی حاکمیت قائم رہی، حق کا بول بالا ہوتارہا، لیکن جب خلافت نے قرآن سے رشتہ توڑ دیا تو جامِ حرّیت زہر آلود ہوگیا، چنانچہ وہ کہتے ہیں:

چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت

اقبال کہتے ہیں: سیدنا حسینؓ کی شہادت اسی داستانِ حرم کی انتہا ہے، جس کا آغاز سیدنا اسماعیل ؑ کی قربانی سے ہوا تھا، وہ کہتے ہیں:

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل
نیز انہوں نے بجا کہا:
حقیقت ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی

علامہ اقبال اپنے عہد سے شکوہ کناں ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں آج بھی یزیدی اَقدار کا چَلن ہے، یہی سکّۂ رائج الوقت ہے، حسین سے محبت کے دعویدار اور یاحسین کا نعرہ لگانے والے تو بہت ہیں، لیکن حسینی اقدار کا علَم بردار کوئی نہیں، کربلا کا نوحہ پڑھنے والے تو بے شمار ہیں، لیکن اپنے حصے کی کربلا سجانے والا کوئی نہیں:

قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی، گیسوئے دجلہ و فرات

علامہ اقبال کے نزدیک عشق نفع ونقصان سے بے نیاز ہوکر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ِ مطلقہ کی شہادت رقم کرنے کے لیے آتش ِ نمرود میں بے خوف وخطر کود جانے کا نام ہے، عشق کی کتاب میں نفع نقصان کا کوئی میزانیہ نہیں ہوتا، مقصد ِ حقیقی کے لیے سب کچھ وار کردینے کا نام عشق ہے، جبکہ عقل نفع نقصان کا تخمینہ لگاتی ہے، وہ سوچ میں غلطاں وپیچاں رہتی ہے۔

علامہ اقبال کے فکری نظام میں متعدد موضوعات ہیں، اُن کا ایک پسندیدہ موضوع ’’عشق وعقل‘‘ ہے، اُن کے نزدیک نتائج سے بے نیاز ہوکر اعلیٰ ترین مقصد کے لیے اپنی متاع حیات وزیست کو قربان کردینے کا نام عشق ہے، عشق ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے، ایمان وایقان کی روح عشق ہے۔ اس کے مقابل اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ دوسری نعمت عقل ہے، عقل ہی انسان کو حیوانات سے ممتاز کرتی ہے، عقل ہی انسان کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مکرّمؐ کے احکام کا مکلَّف اور جواب دہ بناتی ہے، عقل ِ خداداد کی نعمت سے ہی انسان نے کائنات کو مسخر کیا ہے۔ عقل ہی کی بدولت انسان نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور کائنات میں اُس کے سربستہ رازوں کو جانا ہے، انسان سمندروں کی گہرائیوں میں اترا، پہاڑوں کی بلندیوں کو سَر کیا، فضائوں اور خلائوں کی سیر کی، ایجادات کیں، تسخیر ِ کائنات کا یہ سفر تاقیامت جاری رہے گا۔ لیکن جب علامہ اقبال عقل کا مقابلہ عشق سے کرتے ہیں، تو اُن کے نزدیک عشق یقین ِ راسخ ہے، عقل ظنّ و تخمین اور ریب وتردُّد ہے، عقل عُجب ہے، خود پسندی ہے، اَنا ہے، نہ ختم ہونے والی حرص وہوس ہے، کبھی انکارِ حق کے لیے عقل ابلیس کی طرح منطق اور دلیل کا سہارا لیتی ہے، یہ انسان کو بزدل بھی بنادیتی ہے، یہ راحت وعشرت کے حصول کے لیے بندے کو بندے کا غلام بنادیتی ہے، انسان اَسفل ُ السّافلین میں جاگرتا ہے، مگر یہی عقل جب حق کے سامنے سراپا تسلیم ورضا بن جائے تو انسان کو رَشک ِ ملائک بنادیتی ہے۔ علامہ اقبال عشق کو دین کا جوہر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدرو حُنین بھی ہے عشق

علامہ اقبال امام عالی مقام کو اسی عشق کا استعارہ سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں، ہم جگہ کی قلت کے سبب اشعار کے ترجمے پر اکتفا کرتے ہیں:

’’جس نے اللہ کی ذات سے پیمانِ وفا باندھ لیا، اُس کی گردن ہر معبودِ باطل کی قید سے آزاد ہوگئی، مومن کی پہچان عشق سے ہے اور عشق کی پہچان مومن سے ہے، عشق بظاہر ناممکن کو ممکن بنادیتا ہے، عقل اگر سفاک ہے تو باطل کے مقابلے میں عشق سفاک تر ہے، لیکن عشق پاک ہے، ہوشیار ہے اور باطل کے خوف سے بے نیاز ہے، عقل سبب اور مُسَبَّب کی پیچیدگیوں میں کھوئی رہتی ہے، عشق میدانِ عمل میں مشق ِ ناز کرتا ہے،عشق زورِ بازو سے شکار کرتا ہے، عقل مکار ہے اور دامِ ہمرنگ ِ زمیں بچھا کر شکار کو پھنساتی ہے، عقل کا سارا سرمایہ خوف اور شک ہے، جبکہ عشق کے لیے عزم ویقیں اَٹُوٹ انگ ہیں، عقل ہوا کی طرح دنیا میں ارزاں ہے، جبکہ عشق کمیاب ہے، انمول نعمت ہے، عقل کہتی ہے: مفادات سمیٹنے کے لیے خود کو آگے رکھو، عشق کہتا ہے: خود کو آزمائش کے لیے پیش کرو، عقل کہتی ہے: غم پالنا چھوڑو، خوش رہو آباد رہو، عشق کہتا ہے: ربّ کے بندے بن جائو اور مخلوق کی غلامی سے آزاد ہوجائو، سیدنا حسینؓ امام العاشقین ہیں، سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے لخت ِ جگر ہیں، چمن ِ رسالت میں حرّیت کا مَنار ہیں‘‘۔

سانحۂ کربلا کی بابت کہتے ہیں: ’’نورو رحمت کی برسات بھی کربلا کی زمین پر برس کر چلی گئی، کربلا کے ویرانے میں باطل معبودوں کی نفی کا بیج بویا اور (عالَم بالا) کی طرف چلے گئے، وہ ابراہیم واسماعیل ؑ کی قربانیوں کا راز تھے، پس ذبح ِ اسماعیل اجمال تھا اور کربلا اُس کی تفصیل تھی، تلوار فقط دین کی عزت و سربلندی کے لیے ہے اور اس کا مقصد فقط دستورِ قرآنی کی حفاظت ہے، اگر شمشیر اور نعرۂ تکبیر ناحق کے لیے بلند کیا جائے، تو یہ بھی فتنہ ہے، امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ ؓ نے خوارج کے ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہ‘‘ کے جواب میں یہی کہا تھا: بلاشبہ یہ کلمہ توحق ہے، لیکن اسے باطل مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، اقبال کہتے ہیں:

’’مسلمان غیر اللہ کی بندگی اختیار نہیں کرسکتا اور اس کا سر کسی فرعون ِ(وقت) کے آگے سرنگوں نہیں ہوسکتا، امام کے خون کے اس راز کی تفسیر بیان کردی اور سوئی ہوئی ملّت کو جگا دیا، اُن کی تلوار کلمہ ٔ توحید میں ’’لَا‘‘ کی تفسیر یعنی معبودانِ باطلہ کی نفی تھی۔ آپ نے وحدہٗ لاشریک اللہ کی الوہیت کا نقش صحرا میں ثبت کردیا اور ہماری نجات کا سرنامہ سرزمین ِ کربلاپر رقم کر دیا۔ اے بادِ صبا! ہم دور افتادہ عقیدت مندوں کا پیغام سیدنا حسینؓ تک اور ہمارے آنسو اُن کی خاکِ پا تک پہنچادے‘‘۔