سیاسی انہونیوں نے پاکستان کو انہونیستان بنا دیا ہے رہی سہی کسر عدالت عظمیٰ کے نئے فیصلے نے پوری کر دی ہے۔ مخصوص نشستوں کے لیے سنی اتحاد کونسل نے عدالت ِ عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا جس کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا مگر تحریک ِ انصاف کو بن مانگے وہ نشستیں عطاء کر دی گئیں۔ مذکورہ فیصلے پر ہر شخص اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ جس فیصلے کو عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ کہا جا رہا ہے اْسے عدالتی 9 مئی کہنا بہتر ہوگا کیونکہ سنی اتحاد کونسل نے مذکورہ نشستوں کو اپنا حق قرار دیا تھا مگر عدالت ِ عظمیٰ نے اْسے مسترد کردیا اور جس نے اپنا حق نہیں کہا اْس کا منہ موتیوں سے بھر دیا گیا مگر ہمیں حیرت وزیر ِ قانون مسٹر تارڑ کے بیان پر ہے کہتے ہیں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اْس قانون کے مطابق نہیں جو اْنہوں نے پڑھا ہے۔ خدا جانے موجودہ فیصلے کی بنیاد اور منطق کیا ہے؟ وزیر ِ اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ انصاف دکھائی نہیں دیتا تارڑ صاحب کو قانون نظر نہیں آتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ نے عدالتی فیصلے کے بجائے سیاسی فیصلہ کیوں کیا؟ کچھ لوگ اْسے نظریہ ضرورت تقاضا قرار دیتے ہیں۔
یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ پاکستان کے وزیر ِقانون مسٹر تارڑ پاکستان کے قانون سے آگاہ نہیں۔ یہ کوئی نیا یا حیرت انگیز فیصلہ نہیں ایسے ہزاروں مقدمات سماعت کے نام پر زیرِ التواء ہیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ایک شخص مقدمہ دائر کرتا ہے اور ہارنے کے بعد اپیل میں جاتا ہے تو 3 سے 4 بندے اپیل میں شامل کر لیتا ہے۔ مگر جج یہ نہیں پوچھتا کہ ’’تو نے مقدمہ ہی نہیں کیا‘‘ پھر اپیل کیسے کر دی؟ ایک شخص نے سرعام قتل کیا مقتول کے بیٹے نے مقدمہ دائر کر دیا قاتل گرفتار ہوگیا اس عرصے میں مقتول کے بیٹے کا انتقال ہوگیا کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اْسے بھی قتل کر دیا گیا قاتل کی ضمانت ہوگئی اور اب عرصہ 5 سال سے سرعام گھوم رہا ہے کیونکہ مقدمے کی پیروری کرنے والا کوئی نہیں یوں قاتل آزاد پھرتا رہے گا کیونکہ اب پیشی نہیں پڑے گی اور مقدمہ تاحیات التوے کا شکار رہے گا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قانون کے مطابق نہ سہی مگر اخلاقی ضرور ہے اور جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے اْس کا احترام ہر شخص پر واجب ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ واجب الاحترام شخص ایک ایسی جماعت کو مخصوص نشستیں دے دے جس کے لیے اْس نے اپیل ہی نہ کی ہو گویا تماشائی کا منہ موتیوں سے بھر دیا گیا۔ بعض حلقوں کا یہ کہنا قابل ِ توجہ ہے کہ نشستوں کی طلب تحریک ِ انصاف نے نہیں کی تھیں مگر امریکا بہادر نے اْس کی حمایت کا اعلان کیا تھا گویا عدالت کا یہ اقدام درآمد ہدایات کا ثمر ہے۔
تحریک ِ انصاف کے ایک بانی رہنماء کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں پر اقلیتی فیصلہ قانون سے بالاتر ہے جس سے مارشل لا کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ریلیف اْس جماعت کو دیا گیا ہے جو فریق ہی نہیں تھی اگر قانونی فیصلے کسی جماعت کی مقبولیت کو مد ِ نظر رکھ کر کیے جانے لگیں تو عدلیہ اپنی توقیر کھو دیتی ہے۔ اکثریتی فیصلہ قانونی نہیں سیاسی ہے جو آئین اور قانون پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔