ٹرمپ کی تو لاٹری نکل آئی

257

امریکی صدارتی مہم میں بہت کچھ اُلٹا چل رہا تھا۔ صدر بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کچھ بھی تو اچھا نہیں تھا۔ اور اب صدر بائیڈن کے لیے کچھ زیادہ ہی اچھا نہیں ہے۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ دفاعی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ اگر باکسنگ رِنگ کا تصور کریں تو حقیقت یہ ہے کہ اب صدر بائیڈن کونے میں گِھر گئے ہیں اور اُن پر مُکّے برس رہے ہیں۔

ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکی ریاست پنسلوانیا کے شہر بٹلر میں قاتلانہ حملے نے امریکی انتخابی دوڑ کی حرکیات تبدیل کردی ہیں۔ صدر بائیڈن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اچانک سب کچھ یوں تبدیل ہوجائے گا۔ ایک گولی ٹرمپ کے دائیں کان کو چُھوکر گزری ہے اور بہت کچھ اُلٹ پلٹ گیا ہے۔ ٹرمپ نے اِس بدلی ہوئی صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اُن کا بیانیہ تبدیل ہوگیا ہے۔ کل تک وہ بھی دفاعی پوزیشن میں تھے اور اپنی اہلیت اور مزاج کے حوالے سے تنقید کا سامنا کر رہے تھے۔ اب وہ پوری قوم کی ہمدردیاں بٹور رہے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک تجزیے میں کہا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اُس نے بازی ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں پلٹ دی ہے۔ بی بی سی اور دیگر مغربی میڈیا آؤٹ لیٹس کی خبروں اور تجزیوں کا مجموعی تاثر ایک جملے میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کی تو لاٹری نکل آئی ہے۔ جلسہ گاہ کے نزدیک ایک عمارت پر سے جب ری پبلکن پارٹی کے رجسٹرڈ کارکن تھامس میتھیو کروکس کی چلائی ہوئی گولی ٹرمپ کے کان کو چُھوکر گزری تو وہ نیچے جُھکے اور جب سیکریٹ سروس ایجنٹس نے اُنہیں حصار میں لے کر وہاں سے منتقل کرنے کی کوشش کا آغاز کیا تب ٹرمپ نے ہاتھ اُٹھاکر فضا میں مُکّا لہرایا۔ اِس لمحے کی تصویریں وائرل ہوئیں تو ٹرمپ کے لیے سوچنے اور بولنے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔ اِس ایک لمحے کی تصویروں نے امریکی صدارتی انتخاب کی دوڑ میں اُنہیں بہت آگے کردیا ہے۔

تحقیقات کا دائرہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔ یہ دیکھا جارہا ہے کہ ٹرمپ کو قتل کرنے کی یہ کوشش انفرادی فعل تھا یا کسی سازش کا نتیجہ۔ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ جو کچھ بھی تھامس میتھیو کروکس نے کیا وہ اُس کا ذاتی فعل نہ تھا بلکہ اُس نے کسی کے اشارے پر یہ سب کیا تو بات بہت آگے نکل جائے گی۔ منظّم سازش کے بے نقاب ہونے سے امریکی سیاست میں پائی جانے والی نظریاتی اختلاف کی خلیج مزید گہرائی اور گہرائی اختیار کرے گی۔

صدر بائیڈن کی جسمانی و ذہنی صحت کے حوالے سے خبروں اور تبصروں کی بھرمار ہے۔ امریکا اور یورپ کے مین اسٹریم میڈیا آؤٹ لیٹ اُن پر انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اُن کا بُھلکّڑ پن انتہائی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اہم مواقع پر اُن کی زبان کئی بار پھسل چکی ہے۔ چار دن قبل وہ امریکا کی نائب صدر کملا ہیرس سے ٹرمپ کہہ کر مخاطب ہوئے اور ناٹو سربراہ اجلاس کے موقع پر یوکرینی ہم منصب وولودومیر زیلنسکی کو اُنہوں نے صدر پیوٹن کہہ دیا۔

ٹرمپ نے زخمی ہونے کے بعد مُکّا کیا لہرایا، اُنہیں قومی ہیرو کا درجہ دینے کا عمل دیکھتے ہی دیکھتے شروع بھی ہوا اور تیز بھی ہوگیا۔ امریکا اور برطانیہ کے بیش تر مین اسٹریم میڈیا آؤٹ لیٹس نے اُنہیں سَر آنکھوں پر بِٹھانا شروع کردیا۔ خود ٹرمپ کے بیٹے ایرک نے اپنے والد کی مُکّا لہرانے والی تصویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ اِس وقت امریکا کو ایسے ہی فائٹر کی ضرورت ہے۔ ابھی دو دن پہلے کی بات ہے، نیو یارک ٹائمز نے کہا تھا کہ ٹرمپ بہت خطرناک ہیں کیونکہ اُن کی جذباتیت سے کچھ بھی بعید نہیں۔ اور یہ کہ ایسی جذباتیت کے حامل شخص کو امریکی صدر کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اِس منصب کے تحت بہت سے اہم اور دور رس اثرات کے حامل فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ یہی رائے دوسرے بہت سے اخبارات، جرائد اور ویب سائٹس کی بھی تھی مگر اب سبھی بیک فُٹ پر چلے گئے ہیں۔ جانا ہی تھا۔ ایک گولی کیا چلی، سب کچھ ٹرمپ کے حق میں پلٹ گیا۔ تبصروں اور تجزیوں میں اس قاتلانہ حملے کو نظریۂ سازش کے عدسے کی مدد سے بھی دیکھا جارہا ہے۔ امریکی اور یورپی میڈیا اِس امر کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ٹوپی ڈراما تھا یعنی ٹرمپ نے انتخابی دوڑ میں اپنی گرتی ہوئی پوزیشن کو سنبھالنے اور ناقدین کے منہ بند کرنے کے لیے حملے کا اہتمام کیا ہو!

صدر بائیڈن پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ٹرمپ کے خلاف جو بیانیہ تیار کیا تھا وہ انتہائی نامناسب تھا۔ اُنہیں جرمن نازی ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر سے مشابہ قرار دیا جارہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نائب صدر کے متوقع امیدوار سینیٹر جے ڈی وینس کہتے ہیں کہ اس حملے کے لیے صرف جو بائیڈن کے بیانیے کو ذمہ دار قرار دیا جانا چاہیے۔ دوسرے بہت سے ری پبلکن کانگریس مین اور سیاست دان بھی صدر بائیڈن پر بہت زیادہ نکتہ چینی کر رہے ہیں۔

قاتلانہ چاہے حملہ کیا گیا ہو یا کرایا گیا ہو، سچ یہ ہے کہ معاملات ٹرمپ کے حق میں جُھک گئے ہیں۔ صدر جو بائیڈن کی پوزیشن مزید کمزور ہوگئی ہے۔ فی الحال وہ ٹرمپ کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ٹرمپ نے صورتِ حال کو مزید اپنے حق میں کرنے کا عمل تیز کردیا ہے۔ وہ زخمی ہوکر اپنے اُٹھنے اور مُکّا لہرانے کو قوم کی جذباتیت اُبھارنے کے لیے عمدگی سے بروئے کار لارہے ہیں۔