مزدور دشمن لیبر کوڈ کو مسترد کرتے ہیں‘ مزدور نمائندے

401

محنت کشوں کی نمائندہ تنظیموں نے لیبر کوڈ کے حوالے سے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی۔ پریس کانفرنس میں شرکت کرنے والے رہنمائوں میں ناصر منصور،جنرل سیکرٹری نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان لیاقت علی ساہی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سی بی اے یونین، خالد خان، صدر، نیشنل لیبر فیڈریشن سندھ، حسین بادشاہ جنرل سیکرٹری پیپلز لیبر بیورو، کراچی ڈویژن، راؤ نسیم، سینئر نائب صدر پاکستان ورکرز فیڈریشن، عمران علی، پاکستان فیڈریشن آف کیمیکل، انرجی اینڈ مائنز، مختار حسین اعوان، جنرل سیکرٹری متحدہ لیبر فیڈریشن طاہر حسن خان، صدر کراچی یونین آف جرنلسٹس، زہرا خان،جنرل سیکرٹری ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن، فرحت پروین سیکرٹری قانونی امور، آل پاکستان لیڈی ہیلتھ پروگرام ورکرز یونین ، محمد بچل سمٹیو، چیئرمین آل پاکستان فارما سیوٹیکل کیمیکل اینڈ جنرل یونینز فیڈریشن میر ذوالفقار علی، جنرل سیکرٹری ورکرز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن ، محبوب خان،نائب صدر آل پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونین، بخت زمین خان، جنرل سیکرٹری، سائٹ لیبر فورم، راہب علی سمیجو، جنرل سیکرٹری مہران لیبر فیڈریشن پاکستان، غلام محبوب، جنرل سیکرٹری پاکستان ہوٹل ورکرز فیڈریشن، لکھمیر مہر ، نائب صدر وطن دوست مزدور فیڈریشن ، ممبران موومنٹ فار لیبر رائٹس شامل تھے۔

اس موقع پر مزدور رہنمائوں نے کہا کہ آج اس پریس کانفرنس کے توسط سے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور سندھ لیبر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بنا مشاورت پیش کردہ مزدور دشمن ’’سندھ لیبر کوڈ‘‘ کے مسودے کو مسترد کرتے ہوئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کو قانونی شکل دینے کے ہر عمل کو روکا جائے۔ محنت کشوں کے نمائندوں کی یہ مشترکہ رائے ہے کہ یہ مسودہ لیبر قوانین کی تشکیل کے لیے طے شدہ سہ فریقی مشاورت کے بغیر سندھ کے مزدوروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مسودے میں مزدوروں کے وہ بنیادی حقوق جو انہوں نے ایک صدی سے زائد عرصہ کی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیے ہیں انہیں سلب کرنے کیا جا رہا ہے۔ یہ مسودہ آئی ایل او کے بنیادی کنونشن کی کھلی خلاف ورزی کا منہ بولتا ثبوت یے جس میں مزدور کی شناخت اور اس کے آجر سے تعلق کو ختم کر دیا گیا ہے۔
موجودہ لیبر قوانین میں دیے گئے مزودر کو مستقل ملازمت کے حق کے بر خلاف ’’سندھ لیبر کوڈ‘‘ میں غیر قانونی ٹھیکیداری نظام کو قانون شکل دے کر کارخانوں میں اجرتی غلامی کے نظام کو مسلط کیا جارہا ہے اور سرمایہ داروں کو ان کی قانونی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کا قانونی جواز فراہم کیا گیا ہے۔ اس لیبر کوڈ میں ورکرز کی تعریف کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ، وسیع اور بہتر بنانے کے بجائے اسے مزید پیچیدہ بنا کر مکمل طور پر ٹھیکیدار اور پیٹی ٹھیکہ دار یا تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو کروڑوں محنت کشوں کو بے شناخت اجرتی غلام بنا کر رکھ دے گا۔

مجوزہ ’’سندھ لیبر کوڈ‘‘ میں نہایت ہی ڈھٹائی کے ساتھ فیکٹری مالکان کی تعریف کو مختلف کیٹیگری میں تقسیم کرکے انہیں قانونی ذمہ داریوں سے استثنیٰ دیتے ہوئے فارمل سیکٹر کو انفارمل بنایا جا رہا ہے جس کے نتیجے کے طور کسی بھی صنعتی تنازعہ کی صورت مزدور ہر قسم کی قانونی چارہ جوئی، سوشل سیکورٹی، پنشن، یونین سازی، بونس، اوقات کار اور گریجویٹی جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گے۔ اس کوڈ میں پیشگی (ایڈوانس) کے غیر انسانی نظام کو قانونی شکل دینے کی تجویز دی گئی ہے جس کے ذریعے مالکان ورکرز کی خرید و فروخت کر سکے گے جس کی وجہ سے بھٹوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور ہاریوں کی زندگیاں جانوروں سے بدتر ہو جائیں گی۔ پیشگی کا نظام غلامی ہی کی ایک جدید شکل ہے جو آئی ایل او کے کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اس کوڈ کی بدترین بات یہ ہے اس میں کئی ایک سرکاری اداروں میں 1 سے لے کر 15گریڈ تک کے ملازمین کو حاصل یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کے حق کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو آئی ایل او کے بنیادی کنونشن 87 اور 98 کی خلاف ورزی ہے۔

مزید یہ کہ اس ’’سندھ لیبر کوڈ‘‘ میں مزدوروں کی شناخت کو ختم کر کے اس کو کئی ایک پرتوں میں تقسیم کرکے مزدور یک جہتی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آئی ایل او اور سندھ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مسلط کرہ اس کوڈ میں مزدوروں کے حق ہڑتال کو جو کہ ایک بنیادی حق ہے پر مزید قدغن لگا کر عملاً غیر موثر اور تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ سندھ لیبر کوڈ میں بیوروکریسی کے اختیارات کو لا محدود حد تک بڑھا دیا گیا ہے۔
مزدور تنظیموں کے نمائندوں پر مشتمل وفد نے سندھ کے وزیر محنت و افرادی قوت سے ایک خصوصی ملاقات میں ’’سندھ لیبر کوڈ‘‘ سے متعلق مزدوروں کے شدید تحفظات سے آگاہ کیا اور اس کوڈ کے حوالے سے مزدور تنظیموں کا ایک مشترکہ لیٹر بھی باضابطہ طور پر پیش کیا ہے۔ ملاقات میں وزیر محنت جو سندھ لیبر کوڈ پر تحفظات دور کرنے والی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں نے یقین کروائی کہ مزدوروں کی مشاورت کے بغیر کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی جو کہ خوش آئند امر ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس یقین دہانی کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ
1۔ لیبر قوانین کو بہتر بنانے اور یک جا کرنے اور اس پر قانون سازی کے لیے بامعنی سہ فریقی مشاورت کا آغاز کیا جائے اور لیبر قوانین سے متعلق کوئی بھی قانون سازی مزدور نمائندوں کی مشاورت کے بغیر نہ کی جائے۔
2۔ سندھ لیبر کوڈ کے مسودہ کو مشاورتی عمل کے بغیر تیار کرنے والے ذمہ داران کا تعین کیا جائے اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔
3۔ لیبر سے متعلق کوئی بھی قانون مزدور تنظیموں کے نمائندے کے مشاورت کے بغیر نہ بنایا جائے۔
4۔ ٹھیکیداری نظام کی کسی بھی شکل کو قانونی بنانے کے ہر عمل کی بھر پور مزاحمت کی جائے گی۔ ٹھیکیداری نظام کو فی الفور ختم کیا جائے۔
5۔ کارگاہوں میں لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
6۔ تمام مزدوروں کو سماجی تحفظ فراہم کیا جائے۔
7۔ یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کے حق کو یقینی بنایا جائے۔