بنی اِسرائیل کی سرکشی قرآن مجید کا تجزیہ

358

قرآن مجید اور اسلامی تاریخ کے مطابق بنی اسرائیل (قومِ یہود) کو کئی مرتبہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور انبیاء کی تعلیمات کی ناشکری احسان فراموشی اور نافرمانی کی وجہ سے مَغضْوب عَلَیہ قرار دیا گیا۔ قرآن مجید میں مختلف مواقع پر بنی اسرائیل کی احسان فراموشی اور نافرمانیوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کے مَغضْوب عَلَیہ ہونے کا سبب بنا۔ مندرجہ ذیل آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کے کردار اور رویے کو مَغضْوب عَلَیہ قرار دیا ہے۔ یہاں کچھ اہم واقعات اور تعلیمات کا ذکر قرآنی حوالہ جات کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کروں گا:

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مصر کے ظلم و ستم سے نجات دی اور ان کے لیے من و سلویٰ نازل فرمایا، لیکن انہوں نے اس پر ناشکری کی۔ جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے: ’’اور ہم نے ابر کو تم پر سایہ فگن کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا، اور (کہا) جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دی ہیں ان کو کھاؤ (لیکن) انہوں نے (نافرمانی کی) ہم پر ظلم نہیں کیا، بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے‘‘۔ (البقرۃ: 57) آیت کا آخری حصّہ صاف صاف نشان دہی کررہا ہے کہ انہوں نے ان تمام نعمتوں کا انکار کیا اور ظلم کا ارتکاب کیا لیکن یہ ظلم خود اپنے اوپر تھا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کے انحراف، انکار حق اور معصیت پر مسلسل اصرار کی یہ طویل داستان اور آگے بڑھتی ہے۔

گوسالہ پرستی “Worship of the calf”: جب سیدنا موسٰیؑ کوہ طور پر گئے تو بنی اسرائیل نے ان کے پیچھے ایک بچھڑے کی پرستش شروع کر دی۔ قرآن کہتا ہے: ’’اور موسٰیؑ کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا (خود) بنا لیا (اس میں) ایک جسم تھا، جو گائے کی طرح آواز کرتا تھا۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے نہ بات کر سکتا ہے اور نہ انہیں کوئی راستہ بتا سکتا ہے؟ اسے معبود بنا لیا اور وہ ظالم تھے‘‘۔ (الاعراف: 148)

اللہ کے احکامات کی نافرمانی: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مختلف احکامات دیے، جن میں سے اکثر کو انہوں نے نہ مانا اور ان کی نافرمانی کی۔ ’’اور ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ان کی طرف کئی رسول بھیجے۔ جب بھی کوئی رسول ان کے پاس ایسا حکم لے کر آیا جو ان کے نفسوں کو پسند نہ تھا، تو کچھ کو جھٹلا دیا اور کچھ کو قتل کر دیا‘‘۔ (المائدۃ: 70)

احسان فراموشی کی مثالیں

سیدنا موسٰی ؑ کے ساتھ سلوک: سیدنا موسٰی ؑ نے بنی اسرائیل کو اللہ کے احکامات پہنچائے اور انہیں مصر کے ظلم و ستم سے نجات دلائی، لیکن اکثر نے ان کی بات نہ مانی اور نافرمانی کی۔ ’’اور جب موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو، تو وہ کہنے لگے: کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو؟‘‘۔ (البقرۃ: 67)

سْورہ البقرہ کے اس قصّے میں بنی اسرائیل کی قومی خدوخال اور ان کے رویوں کی جامع تصویر پیش کی گئی ہے۔ اس قصّے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا وحی الٰہی سے تعلق کمزور ہو چکا تھا اور وہ ہدایت کی روشنی سے محروم ہو چکے تھے۔ ان کے دلوں میں ایمان بالغیب و اللہ پر توکل کی کمی تھی، اور اصولوں پر نازل شدہ ہدایت الٰہی کی تصدیق سے محروم تھے۔ اللہ کے احکام اور ہدایات کے قبول کرنے میں وہ ہمیشہ پس و پیش کا شکار رہتے تھے۔ وہ جھوٹے بہانے بنانے اور دین کے شعائر کے ساتھ مذاق کی عادت رکھتے تھے۔ ان کے پیغمبر جب انہیں اللہ کا واضح حکم سناتے تو وہ بجائے فوراً عمل کرنے کے، مختلف بہانے اور سوالات شروع کر دیتے۔ حکم اپنے الفاظ میں بالکل صاف اور واضح تھا اور اس پر عمل کیا جا سکتا تھا۔ یہ قصّہ بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی بدعہدی، اور اللہ کے احکام کے ساتھ ان کے رویے کی عکاسی کرتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں ایمان کی حقیقی روشنی کو جگہ دینے سے قاصر رہے۔

انبیاء کی مخالفت: بنی اسرائیل نے اپنے انبیاء کی تعلیمات کو ردّ کیا اور بعض انبیاء کو قتل بھی کیا۔ ’’پس ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دیے‘‘۔ (المائدۃ: 13) یہ اقتباس ایک مخصوص نقطہ ٔ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں یہودیوں کی بعض خصوصیات کو خدا کی لعنت کے اثرات کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جیسے کہ بدبختی، رحمت کے نشان کی عدم موجودگی، اور انسانی جذبات سے خالی معاملات۔ یہ کہا گیا ہے کہ ان کی فطرت اور جبلت ان کے چہروں اور خدوخال سے عیاں ہوتی ہے، چاہے وہ بظاہر کتنے ہی شائستہ اور خوش مزاج نظر آئیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ چہرے کی سختی اور خدوخال کی خشکی ان کے دل کی خشکی اور مزاج کی کرختی کی عکاسی کرتی ہے۔یہودی علماء نے تورات کے اصل متن میں تبدیلیاں کیں، اپنی مرضی کی چیزیں شامل کیں، اور اسے اللہ کی طرف سے نازل شدہ بتایا۔ اس تحریف کا ایک طریقہ یہ تھا کہ آیات کے اصلی متن کو تو برقرار رکھا، لیکن ان کے مفہوم کو اپنی مرضی کے مطابق بدل دیا تاکہ اپنے ذاتی اور گھٹیا مقاصد حاصل کرسکیں۔ اس طرح انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔ یہودیوں نے اللہ کے احکام کو بھلا دیا، اسلامی نظام حیات اور شریعت کو ترک کردیا، اور اپنی زندگیوں میں شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنے معاشرے کو آزاد کردیا کیونکہ اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد انہیں اللہ کے پاک اور سیدھے دین کے مطابق زندگی گزارنی پڑتی تھی، جو ان کے لیے مشکل تھا۔

نافرمانی و سرکشی اور انبیاء کے قتل کا ذکر: بنی اسرائیل کی ایک بڑی کمزوری ان کی دنیوی خواہشات اور مادی رغبت تھی۔ انہوں نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو کم تر سمجھا اور مزید مادی آسائشوں کی طلب کی۔ ’’اور جب تم نے کہا کہ اے موسٰی ؑ! ہم ایک ہی کھانے پر ہرگز صبر نہ کریں گے۔ پس ہمارے لیے اپنے ربّ سے دعا کیجیے کہ وہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز پیدا کر دے۔ موسٰی ؑ نے کہا کہ کیا تم اس چیز کو جو ادنیٰ ہے بہتر چیز کے بدلے مانگتے ہو؟ کسی شہر میں اتر پڑو، پس تمہارے لیے وہ کچھ ہے جو تم نے مانگا۔ اور ان پر ذلت اور محتاجی ڈال دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں لوٹائے گئے۔ یہ اس سبب سے تھا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ یہ اس سبب سے تھا کہ نافرمان تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے‘‘۔ (سورہ البقرہ: 61)

یہ آیت بنی اسرائیل کی ناشکری اور نافرمانی کو واضح کرتی ہے کہ کس طرح انہوں نے اللہ کی نعمتوں کو کمتر سمجھا اور انبیاء کی تعلیمات کی مخالفت کی، جس کی وجہ سے ان پر ذلت اور اللہ کا غضب نازل ہوا۔ اسی طرح، بنی اسرائیل کی نافرمانی اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی ان کے احسان فراموشی کا ایک اور بڑا سبب تھی۔ انہوں نے بارہا اللہ کی تعلیمات سے انحراف کیا، سورۃ المائدہ (78-79) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر کیا، داؤد اور عیسٰی ؑ ابن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی گئی۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو برے کاموں سے نہیں روکتے تھے، جو وہ کرتے تھے برا تھا‘‘۔ یہ آیات اور دیگر مقامات پر بنی اسرائیل کی نافرمانی اور اللہ کی ناراضی کا ذکر ہے جو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں اور انبیاء کی تعلیمات کی قدر کرنی چاہیے اور نافرمانی سے بچنا چاہیے۔

بنی اسرائیل نے اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء کی تعلیمات کو قبول کرنے کے بجائے ان کی مخالفت کی اور بعض کو قتل بھی کیا۔ ان کی یہ سرکشی اور انکار اللہ کی ناراضی کا سبب بنا۔ ’’اور ہم نے موسٰی ؑ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسٰی ؑ کو معجزے عطاء کیے اور روح القدس سے اس کی مدد کی۔ تو کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہارے پاس وہ چیزیں لے کر آیا جو تمہاری خواہشات کے خلاف تھیں تو تم نے تکبر کیا، بعض کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کیا؟‘‘۔ (سورہ البقرہ: 87) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ بنی اسرائیل نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات کو قبول کرنے کے بجائے ان کی مخالفت کی اور بعض کو قتل بھی کیا۔

وعدہ خلافی اور سبت کے قانون کی خلاف ورزی: بنی اسرائیل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ کے احکامات سے انحراف کیا، جس کے نتیجے میں اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا۔ ’’اور تحقیق تم ان لوگوں کو جانتے ہو جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے دن میں زیادتی کی، تو ہم نے ان سے کہا ذلیل و خوار بندر ہو جاؤ۔ پس ہم نے اس واقعہ کو اس زمانے کے لوگوں کے لیے اور ان کے بعد آنے والوں کے لیے عبرت اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت بنا دیا‘‘۔ (سورہ البقرہ: 65-66)

ظاہر ہے کوئی حیوان اپنے پیٹ سے بلند ہوکر سوچ نہیں سکتا۔ چناںچہ جونہی انہوں نے انسان کی خصوصیت اولیٰ یعنی ٹھوس اور بلند ارادہ اور خداوند کریم کے ساتھ کیے ہوئے عہد پر قائم رہنے کے عزم صمیم کو ترک کیا تو وہ مقام انسایت سے گر کر بہیمیت کے درجے میں آگئے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے جسم بھی بندر کے جسموں میں تبدیل ہوگئے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ روح، فکر، شعور اور مزاج کے اعتبار سے وہ بندر بن گئے ہوں اور بندروں جیسی حرکتیں کرتے ہوں کیونکہ فکر کا پر تو ہمیشہ چہرے، شکل و ہیبت اور حرکات سکنات پر پڑتا ہے۔ انسان کی ظاہری حالت پر اس کی فکر کے گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ یہ قصّہ بنی اسرائیل کی نافرمانی اور تعمیل حکم میں لیت ولعل اور عذر سازی کی واضح تصویر کھینچ کر رکھ دیتا ہے، جس میں مدینہ کے یہودی ممتاز تھے۔

بت پرستی اور نافرمانی: ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار اُتار دیا، تو وہ ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو اپنے بتوں کی عبادت میں مشغول تھی۔ بنی اسرائیل نے کہا: اے موسٰی ؑ! ہمارے لیے بھی ایک ایسا معبود بنا دے جیسے ان کے معبود ہیں۔ موسٰی ؑ نے کہا: تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو۔ یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں وہ تباہ ہونے والا ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ باطل ہے‘‘۔ (سورہ الاعراف: 138-141)

یہ تمام آیات بنی اسرائیل کی نافرمانی اور احسان فراموشی کو واضح کرتی ہیں، اور یہی رویہ ان کے مَغضْوب عَلَیہ ہونے کا سبب بھی بنا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور انبیاء کے احکام کی مخالفت ایک بڑی خطا ہے اور یہ قومِ یہود کی تاریخ میں کئی بار دہرائی گئی۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا تذکرہ ایک عبرت ہے، جس سے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کی مکمل پیروی کریں، ان نعمتوں کی قدر کریں جو اللہ نے انہیں عطاء کی ہیں، اور انبیاء کی تعلیمات پر عمل کریں۔