صحرا مگر بہ تنگی چشمِ حسود تھا

165

راقم کو جب بھی جماعت اسلامی پاکستان، اس کی ذیلی اور برادر تنظیموں کی جانب سے ملک و قوم اور بیرون ملک دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے بے لوث اور بے غرض انداز میں ہر میدان اور مثبت محاذ پر ہمہ جہت انداز میں سرگرم عمل اور بروئے کار آتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو اسے ایسے میں بے اختیار ہی مرزا غالب یاد آجاتے ہیں۔

جزقیس نہ کوئی اور آیا بروئے کار

اور پھر معاً بعد شعر کا یہ مصرعہ ثانی بھی جو ہمارے ملک کی مقتدرہ اشرافیہ اور سارے بالادست حکمران طبقات پر صد فی صد منطق ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

صحرا مگر بہ تنگی بہ چشم حسود تھا

جس طرح سے کوئی بھی صحرا غالب کے الفاظ میں اپنی تمام تر وسعت کے باوجود اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ قیس نے میدانِ عشق میں بے مثال ایثار کیا اور قربانی دی ہے لیکن وہ ایک چشم حاسد کی طرح دیدہ دانستہ اس سے اغماض اور بے توجہی برتتا ہے بعینہ وطن عزیز کے بالادست طبقات بھی جماعت اسلامی کی شاندار اور بے نظیر سرگرمیوں اور خدمات سے باخبر رہ کر بھی اسے نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ ان میں ہمارا میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ اس کا ایک بڑا ثبوت کراچی کی میئر شپ کے لیے جان بوجھ کر ان کی طرف سے حافظ نعیم الرحمن جیسے لائق فائق اور اہل ترین امیدوار کی راہ میں روڑے اٹکانا ہے جو مذکورہ منصب کے لیے موزوں ترین شخصیت تھے لیکن برا ہو نام نہاد انجانے خدشات اور محدود ادنیٰ مفادات کا کہ جن کی وجہ سے شہر کراچی کو صحیح معنوں میں روشنیوں کا شہر بننے کے ایک بے حد سنہری موقع سے دیدہ دانستہ محروم کردیا گیا اور شہر کی بلکہ اہل شہر کی بدقسمتی کہ انہیں ایک مرتبہ پھر سے چوروں، اُچکوں اور لٹیروں کے حوالے کردیا گیا ہے، اہل ؟؟؟ یہ کہنے پر حق بہ جانب ہیں کہ مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے ہی دل سے پوچھیے مری داستان حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا۔

بہرکیف! یہ جو کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو قادر مطلق ہے اور وہ ہر شر میں سے خیر کو باآسانی برآمد کرسکتا ہے، تو پھر بعینہ کچھ ایسا ہوا حافظ صاحب موصوف بالادست حلقوں کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کیے جانے کے بعد میئر کراچی تو نہ بن سکے البتہ ارکان جماعت کی اکثریت رائے سے بعدازاں امیر جماعت اسلامی پاکستان ضرور منتخب ہوگئے۔

انجیئر حافظ نعییم الرحمن، ہر امیر جماعت کی طرح اپنے اہل وطن کے مسائل اور مصائب سے بہ خوبی واقف اور آگاہ ہی نہیں بلکہ ان کے حل کے لیے شبانہ روز مع اپنی ٹیم کے سرگرم عمل بھی ہیں۔ کراچی، لاہور اور پشاور میں ’’بنو قابل‘‘ کے نام سے نوجوانوں کے لیے کمپیوٹر کے شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے بہت بڑے بڑے پروگرامات کا کامیاب انعقاد ان کی اسی سوچ کا مظہر اور عملی ثبوت ہے کہ وہ جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ آئی ٹی کی تعلیم دے کر وطن عزیز کے بچوں اور بچیوں کو عروج اور ترقی سے ہمکنار اور اپنے پائوں پر کھڑا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جماعت کی قیادت اس امر سے بھی پوری طرح سے باخبر ہے کہ ملک کے عوام حکمران طبقے کی عیاشیوں اور ان کی جانب سے آئی ایم ایف کے احکامات پر تشکیل کردہ ناقص معاشی پالیسیوں کے سبب کتنے زیادہ کرب اور تکالیف سے دوچار ہیں۔ حالیہ پیش کردہ وفاقی بجٹ میں ٹیکسز کی بھرمار اور آئے دن بجلی کی قیمتوں میں کیے جانے والے بے محابہ اضافے نے تو اہل وطن کی اکثریت کو ایک طرح سے ذہنی مریض ہی بنا ڈالا ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق پاکستان میں 10 کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور خدشہ یہ ہے کہ امسال پیش کردہ تباہ کن غریب اور عوام دشمن بجٹ کی وجہ سے بہت جلد مزید 1 کروڑ 10 لاکھ افراد سطح غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے لگیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر جماعت محترم حافظ نعیم الرحمن نے 12 جولائی کو اسلام آباد میں بطور احتجاج دھرنے کا اعلان کیا تا کہ اہل وطن کو حکومت کی جانب سے مسلط کردہ تباہ کن ٹیکسز اور بجلی کی قیمتوں میں آئے دن بڑھتے اضافے کے خلاف ایک نتیجہ خیز جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ البتہ محرم الحرام کے حساس ایام کی وجہ سے اب اس احتجاجی عظیم الشان دھرنے کا انعقاد 26 جولائی کو کیا جائے گا جو ان شاء اللہ تمام جائز مقاصد کے حصول تک جاری رکھا جائے گا۔ اسی تناظر میں محترم امیر جماعت پاکستان کی اپیل پر بے تحاشا بڑھتی ہوئی مہنگائی بجٹ میں بہت زیادہ عائد کردہ ٹیکسز اور بجلی کی قیمت میں آئے دن ظالمانہ اتوار 14 جولائی کو شدید گرمی کی حدت اور شدت کے باوجود جماعت اسلامی کی جانب سے بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں، ریلیوں اور پریس کلبوں کے سامنے دھرنوں کا انعقاد کیا گیا۔ جیکب آباد، لاڑکانہ، شکارپور، سکھر، کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی، نواب شاہ، میرپور خاص، ٹنڈوالہیار سمیت صوبے کے چھوٹے بڑے تمام شہروں میں زبردست کے لیے والا احتجاج بلاشبہ ظالم حکمران طبقے اور ان کے اصل سرپرستوں کے لیے نوشتہ دیوار کے مصداق ہے۔ سندھ سے ملحق بلوچستان کے اضلاع جعفر آباد، ڈیرہ مراد جمالی، ڈیرہ اللہ یار اور دیگر چھوٹے بڑے مقامات سے بھی احتجاجی مظاہروں، ریلیوں اور دھرنوں کی موصولہ اطلاعات اس امر کا ایک بین مظہر ہیں کہ جماعت اسلامی نے اب اہل وطن کو آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنے والے حکمران ٹولے سے دائمی نجات دلانے کا پختہ عزم اور ارادہ کرلیا ہے۔ جیکب آباد میں ایک بہت بڑی ریلی ڈسٹرکٹ کونسل ہال سے نکالی گئی جس کی قیادت نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان ممتاز حسین سہتو کررہے تھے۔ ریلی مقامی پریس کلب پہنچ کر ایک بڑے احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہوگئی جس سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز سہتو نے ظالم حکمران طبقے کی جانب سے بے تحاشا مہنگائی اور ٹیکسز کے نفاذ کے خلاف انہیں سخت ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ان شاء اللہ ظالم حکمرانوں کا یوم حساب قریب ہے اور 26 جولائی کو اسلام آباد میں ایک عظیم الشان دھرنا بھی اسی حوالے سے دیا جائے گا۔ قبل ازیں مقامی ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں ’’شہادت امام حسینؓ کانفرنس‘‘ سے بھی ممتاز حسین سہتو نے مفصل خطاب کرکے فلسفہ شہادت پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر امیر صلح حیدر لاشاری، علامہ محمد حنیف کھوسو، امیر ضلع دائود عبدالرحمن منگریو، امداد اللہ بجارانی، خیر محمد تینو، عبدالصمد کٹبار، ہدایت اللہ رند نے بھی خطاب کیا۔