ہر سال جولائی کے مہینے میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں پانچ جولائی 77 کے انقلاب کے حوالے سے ایک بحث چھڑجاتی ہے کہ جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کو معزول کرکے اقتدار پر جو قبضہ کیا ان کا یہ عمل جائز تھا یا ناجائز۔ آئین کے مطابق تھا یا اس کے مخالف۔ بھٹو صاحب کی مذاکرات کو غیر ضروری طول دینے کی وجوہات کیا تھیں اور یہ کہ ان کے آئندہ کے عزائم کیا تھے۔ اسی طرح کے اور بہت سے نکات ہیں جن پر مختلف زاویوں سے نظر ڈالی جاتی ہے۔ لیکن ذرا ہم یہ بھی غور کرلیں کہ بھٹو صاحب ملکی سیاست میں آئے کیسے؟ وہ باہر سے پڑھ لکھ کر آئے تو پتا نہیں کس کی سفارش پر ایوب خان کی کابینہ میں براہ راست وزیر بن گئے اور ایوب خان کو ڈیڈی کہنے لگے ان کے علاوہ اور جتنے ہمارے ملک میں سیاست دان آئے ان میں زیادہ تر تو وہ لوگ تھے جن کا کوئی نہ کوئی خاندانی یا جاگیردارانہ پس منظر تھا، یا پھر وہ کسی پرانی سیاسی جماعت سے وابستہ رہے ہوں مسلم لیگ برصغیر کی پرانی سیاسی جماعت تھی ابتدائی ایام میں اسی پارٹی سے وابستہ لوگ ہمارے سیاسی لیڈر تھے پرانی سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ کے علاوہ نیشنل عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹی بڑی سیاسی و دینی جماعتیں تھیں۔ بھٹو صاحب کے علاوہ ہمارے اور بھی سیاست دان ایسے ہیں جن کے پھول فوجی حکمرانوں کے گلدستوں میں کھلے ہیں۔ یہ کہنا کہ بھٹو صاحب سول حکمران تھے اس لیے ان کا دور جنرل ضیاء سے بہتر تھا اور چونکہ جنرل ضیاء فوجی حکمران اور غیر منتخب تھے اس لیے ان کے سارے کام غلط تھے۔ بھٹو صاحب نے اپنے دور حکومت میں جو ظلم کیے ہیں اس کی کوئی مثال دور سابق میں نہیں ملتی وہ ایک ظالم حکمران تھے۔
5جولائی 1977 پاکستان کی سیاسی زندگی کی وہ تاریخ ہے جس کے اچھے اور برے اثرات اب تک ہمارے سامنے آرہے ہیں اس حوالے سے اب تک جتنے بھی مضامین اور آرٹیکل ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں اس سے مجموعی طور پر جو تاثر بنتا ہے وہ یہ کہ یہ ایک منحوس دن تھا جب ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی، بڑی مشکل سے تو جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر آئی تھی اور اس سول حکومت کے قیام میں سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ ہمارے ملک کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اور لبرل صحافی و دانشور تو پانچ جولائی کو ملک کی سیاسی تاریخ پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیتے ہیں، چلیں نظریاتی مخالفین جو کچھ لکھتے ہیں وہ تو لکھتے ہیں ہمارے دائیں بازو اور اسلامی ذہن رکھنے والے صحافی اور دانشور حضرات بھی ان ہی لوگوں یعنی بائیں بازو والے دانشوروں کی لَے میں لَے ملاکر ان ہی کہ موقف کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں 5جولائی کی تاریخ 5جولائی کیسے بنی کہ اس نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا فرض کیجیے پانچ جولائی کو جنرل ضیاء صاحب نہ آتے اور بھٹو صاحب ہی وزیر اعظم رہتے تو کیا ہوتا اس مفروضے پر ہمارے کوئی دانشور اپنی خیال آرائی نہیں فرماتے۔ بھٹو صاحب کے اچھے کاموں کو تو اب تک لوگ گنواتے ہیں جس میں ایٹم بم کے پراسس کا آغاز کرنا، اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد حالانکہ اس نیک کام کے پیچھے یہ بات چھپی تھی اس کے ذریعے بنگلا دیش کو منظور کرنا تھا بھٹو صاحب کو بنگلا دیش منظور کرنے کی جلدی کیوں تھی اس لیے کہ آگے چل کر مشرقی پاکستان کی طرف سے یہ آواز نہ اٹھ جائے کہ مغربی پاکستان کے ساتھ کنفڈریشن قائم کرلی جائے تاکہ ایک بڑے مسلم ملک کی سالمیت برقرار رہے۔ اسی طرح قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا بھٹو صاحب کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے۔ شراب پر پابندی، جمعہ کی چھٹی اور قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام جیسے اقدامات اس وقت اٹھائے جب 1977 میں بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کی زبردست تحریک چل رہی تھی۔
جب ہم جنرل ضیاء اور بھٹو کے ادوار کا مقابلہ کرتے ہیں تو بھٹو صاحب میں ایک ہی بڑی خوبی تھی کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب جمہوری حکمران تھے باقی ان کا پورا دور حکومت انتہائی متنازع رہا ہے اور یہ کہ وہ ایک ظالم حکمران کے طور سے پہچانے جاتے تھے جنرل ضیاء میں ایک ہی بڑی خامی تھی کہ وہ عوام کی رائے سے منتخب جمہوری حکمران نہیں بلکہ ایک غاصب حکمران تھے جنہوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا ویسے ان کا طرز حکمرانی بھٹو صاحب سے بہتر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھٹو صاحب نے مولانا مودودی سے ایک ملاقات میں کہا کہ مولانا آپ میری مدد فرمائیں اور کمیونسٹوں سے میری جان چھڑائیں مولانا نے کہا کہ آپ ملک میں اسلامی نظام نافذ کردیں خود بخود آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ کچھ عرصے کے بعد جنرل ضیاء نے اپنے ابتدائی دور میں مولانا مودودی سے ملاقات کی اور کہا کہ مولانا میں ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتا ہوں آپ میری مدد فرمائیں مولانا نے ان کو جواب دیا کہ آپ نوے دن میں انتخاب کراکے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردیں یہی اس قوم پر آپ کا بہت بڑا احسان ہوگا یہاں یہ نکتہ سمجھنے کا ہے بھٹو صاحب ایک منتخب جمہوری حکمران تھے تو ان سے مولانا نے اسلامی نظام نافذ کرنے کا کہا اور جنرل ضیاء ذاتی کردار کے حوالے سے بھٹو صاحب سے بہتر تھے لیکن چونکہ وہ ایک منتخب نہیں بلکہ قابض حکمران تھے اس لیے ان سے اسلامی نظام کے بجائے جمہوریت اور انتخابات کی بات کی۔
بھٹو کے دور حکومت میں وہ کیا وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پانچ جولائی کا انقلاب وقوع پذیر ہوا سب سے پہلی بات یہ کہ پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی اکثریت یہ سمجھتی تھی کہ سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے میں مجیب اور جنرل یحییٰ کے ساتھ بھٹو بھی برابر کے شریک ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پورا دور حکومت ظالمانہ دور تھا ملک میں ایمر جنسی لگی ہوئی تھی پریس کا گلا کھونٹ دیا گیا۔ بھٹو اپنے خلاف کوئی تنقید سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ اخبار جسارت جو ان پر شدید تنقید کرتا تھا اسے بند کردیا گیا عدالتیں اخبار بحال کرتیں یہ پھر بند کردیا جاتا ایک اجتماع میں پروفیسر عبدالغفور کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ بھٹو اور جسارت ایک ساتھ نکلیں گے۔ جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد، تحریک استقلال کے خواجہ رفیق شہید، احمد رضا قصور ی کے والد نواب محمد احمد خان کا قتل ان ہی کے دور حکومت میں ہوئے۔ ہم موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مطالبہ کریں گے کہ وہ بھٹو کے عدالتی قتل کے ساتھ ان مقتولین کے قاتلوں کا بھی پتا لگائیں۔ بھٹو کے خلاف پاکستانیوں کے دل میں ایک نفرت تو تھی لیکن یہ نفرت کسی تحریک میں اس لیے تبدیل نہ ہو سکی کہ بھٹو نے اپنے دور میں بعض اچھے کام بھی کیے تھے جیسے کہ اسلامی کانفرنس کا انعقاد، اسلامی آئین کی تشکیل اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا۔
پانچ جولائی کے انقلاب کی سب سے اہم وجہ بھٹو کی سربراہی میں 7مارچ 1977 کا ہونے والے انتخاب میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہے۔ 200 کے ایوان میں 155 پر پیپلز پارٹی کے ارکان کامیاب ہوئے جبکہ اپوزیشن اتحاد پی این اے کو 36 ملیں، اس رزلٹ نے پورے ملک میں آگ لگادی یہاں پر رک کر یہ کہنا ضروری ہے کہ بھٹو کی پوزیشن اتنی خراب نہیں تھی کہ وہ انتخاب جیت نہیں سکتے تھے بلکہ وہ سادہ اکثریت سے آسانی سے جیت جاتے اگر بھٹو صاحب کی نشستیں 155 کے بجائے 105 ہوتیں اور پاکستان قومی اتحاد کی 36 کے بجائے 80 نشستیں ہوتیں تو کسی قسم کی تحریک اٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن برا ہو ہمارے سیاستدانوں کی اس خواہش کا کسی طرح دوتہائی اکثریت مل جائے تاکہ آئین کو گھر کی لونڈی بنا لیا جائے۔
اب پانچ جولائی کے انقلاب کے ملکی سیاست پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں یہ ایک طویل موضوع ہے سب سے اہم بات یہ کہ بڑی مشکل سے ملکی سیاست جمہوریت کی پٹڑی پر آئی تھی وہ اترگئی۔ 90 دن میں انتخاب کا وعدہ پھر احتساب کی آڑ میں اس کا التوا پھر انتخاب ہوا نہ احتساب۔ افغان وار میں لیڈنگ رول ادا کرنا اس کے مثبت اور منفی دونوں قسم اثرات پڑے یہ خود ایک مستقل موضوع ہے سب سے خوفناک بات یہ ہوئی کہ ہیروئن اور کلاشکوف کلچر نے ہماری نسلوں کو تباہ کردیا۔