کہنے والے کہتے ہیں، درست ہی ہوگا کہ یہ وقت بھی گزرا ہوگا۔ جو ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گردش ایام کا چکر مکمل ہونے کی وجہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ہاں جو کہا گیا اور اب جو دیکھا جارہا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ کسی دور میں چربٹ راج تھا اُس کی حکمرانی میں ایک مجرم پکڑا گیا، عدالتی کارروائی اور فتوے نے اس کا جرم ثابت کردیا تو فیصلہ یہ ہوا کہ اس کو پھانسی دے کر عبرت کدہ بنادیا جائے، کھایا پیا تنومند مجرم جب پھانسی گھاٹ لے جایا گیا تو پھانسی کا پھندا اُس کی گردن کو دبوچنے میں ناکام رہا کہ وہ گردن تک پہنچے اور کام تمام کردے، جلاد نے فوراً قاضی القضاء کو اُس نے بادشاہ وقت چربٹ کو خبر دی کہ یہ مسئلہ درپیش ہے تو اُس ’’دانا‘‘ نے برجستہ کہا کہ کوئی بات نہیں جس کی گردن میں پھندہ فٹ آئے اُسے پھانسی پر چڑھا دیں، ہر کارے دوڑے اور چند محنت کشوں کو باندھ لائے، گردن کا سائز ناپا اور پھر ایک کی گردن میں پھندہ فٹ آیا تو اس کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ جب سے یہ کہاوت چلی آرہی ہے کہ ’’اندھیر نگری چربٹ راج‘‘ سو پاکستان کے حالات میں تو مماثلت اُس دور سے اس قدر ہے کہ گستاخی نہ ہو تو برملا کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس کا دور ثانی ہے۔
آج کی دنیا کے فیصلہ ساز آئی ایم ایف نے حکم جاری کیا ٹیکسوں کا پھندا ٹائٹ کرو اور ہمارے قرض کی مع سود ادائیگی کرکے اگلے قرض کی بات کرو۔ مہاجن کے حکم پر اب گردنوں کی تلاش کا کام شروع ہو گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیبل سے آراستہ اس ریاست میں دو طبقے بچے ہیں۔ متوسط طبقہ یا تو کارِ بد سے اوج ثریا تک جا پہنچا یا پھر حالات نے دھکیل کر غربت کی لکیر سے بھی نیچے گرا دیا۔ ایک طبقہ اشرافیہ کہلاتا ہے، پتا نہیں کیوں کہلاتا ہے جس کی تنخواہیں، آمدن، لوٹ کھسوٹ لاکھوں سے شروع ہو کر اربوں بلکہ کھربوں تک ہے ان کی گردنوں میں حرام کاری کی دولت کے طوق ہیں یہ ملک کی معیشت کا گھن اور اس کی قسمت کے مالک ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ قبہ، جثہ طول و عرض میں ان کی بڑھتی ہوئی توند اور موٹی گردن دیکھ کر بجٹ سازوں نے اُس کو مساکین کی فہرست میں شامل کررکھا ہے۔ یہ لاڈلے ہیں سو ان کو بجلی فری، پٹرول فری، گیس فری، گاڑی فری، بنگلہ فری، سفر کی سہولت سرکار کے خرچ پر، لوٹ کی کھلی بلا روک ٹوک اجازت ’’گریبی‘‘ میں ہے، ان کو پھانسی والے مہنگائی کے پھندے سے استثنیٰ اس لیے ہے کہ پھندا ان کی گردن میں فٹ نہیں آرہا ہے۔ مگر قرض کی مے کی خاطر مہنگائی کی پھانسی پر کسی کو چڑھانا ضروری تھا، سو لاوارث قوم کی گردن اس پھندے کے لیے فٹ نظر آئی جو بمشکل نان و نفقے کا بندوبست کر پارہے ہیں۔ مہنگائی نے اُن کی چولیں ہلا دی ہیں۔ سو، بی بی سی کے بقول حکومت پاکستان کے پاس دو طبقے ہیں جن کا لہو نچوڑ سکتی ہے، ایک بجلی کے صارفین اور دوسرے سرکاری ملازمین سو اُن کو یہ کہہ کر چڑھ بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے گا۔ چڑھا دیا اب بجلی کے بل رہی سہی پونجی بِکوا رہے تو گھر کے نوالے کم کرا رہے ہیں، بجلی ضروری ہے جو جُز زندگی ہے، حکومت نے حرز جان بنا دی ہے۔
کہتے ہیں سویا ہوا شخص پانی کے چھینٹوں سے جاگ جاتا ہے۔ جماعت اسلامی اس قوم کو جگانے کے لیے سرگرم ہے کہ اُٹھ کھڑے ہوں تو پھر نیا جہاں تمہارا منتظر ہے، اگر سوئے رہے تو تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ انسان کو وہی ملتا ہے جتنی اس نے کوشش کی یہ ربّ کا فرمان ہے جو سو فی صد درست ہے۔ جماعت اسلامی کی دعوت پر اُٹھ کھڑے ہوں وقت ہے اس کا دست و بازو بنو، وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے اب نہیں تو کبھی نہیں۔