آزاد فلسطین کے لیے جس طرح امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے آواز اٹھائی ہے، وہ ساری دنیا کے آزادی پسند لوگوں کے لیے ایک مثال ہے، اب ایک قدم آگے بڑھایا گیا ہے کہ شوبز اور اسٹیج پروگرام میں فری فلسطین کا نعرہ بلند کیا گیا ہے۔ حال ہی میں امریکی ٹی وی اسٹار، سوشل میڈیا انفلوئنز اور ماڈل کم کارڈیشن کو سننے کے لیے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔ ہر کوئی خاموشی سے ٹی وی اسٹار کا خطاب سن رہا تھا۔ اس دوران ایک خاتون نے ’’فری فلسطین‘‘ کے نعرہ لگانے شروع کردیے۔ نعروں کی گونج کے دوران منتظمین کم کارڈیشن سے معذرت کرتے ہیں۔ ٹی وی اسٹار اس پر مختصر کہتی ہے کہ ’’ہر کسی کو آزادی کا حق حاصل ہے۔ اور ہر کسی کو آزاد ہونا چاہیے‘‘۔ فلسطین کے لیے امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے مل کر آواز بلند کی مظاہرے کیے۔ گریجویشن تقریبات سے واک آئوٹ کیا گیا۔ نعروں کے ساتھ احتجاج کیا گیا، امریکا کی مذمت کی گئی، اسرائیلی سفارت خانوں کے سامنے مظاہرے کیے گئے۔ ہارورڈ، بوسٹن، کولمبیا اور دیگر امریکی یونیورسٹیاں ثقافتی بحث کا مرکز بن گئی ہیں کیونکہ بہت سے طلبہ کو یہودی دشمنی کے الزامات کا سامنا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی ڈیموکریٹک نمائندہ الہان عمر کی بیٹی بھی زیر حراست لیے جانے والوں میں شامل ہیں۔ یونیورسٹیوں کے طالب علم کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ جڑی تمام سرگرمیوں کو معطل کیا جائے۔ دنیا اسرائیلی قابض فوج کی غزہ کی پٹی پر تباہ کن جنگ اور ہزاروں معصوم فلسطینی بچوں کے قتل کو دیکھ رہی ہے۔ انہیں اسرائیلی مظالم پر غصہ ہے وہ اپنے اپنے ملکوں کے سربراہوں پر غزہ میں سیز فائر کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں۔ سیاست کے علاوہ یہ دبائو شوبز کی دنیا میں بھی نظر آرہا ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیل کے حامی امریکی کامیڈین اور اداکار سین فیلڈ کو ڈیوک یونیورسٹی نے تقریب میں تقریر کے لیے بلایا تو وہاں شدید احتجاج کیا گیا اور واک آئوٹ کرتے ہوئے
طلبہ باہر آگئے، جو فری فری فلسطین کے نعرے لگا رہے تھے۔ کھیلوں کے اسٹیڈیم میں تو فلسطین سے یکجہتی کے لیے جھنڈے لہرائے جارہے ہیں۔ کھلاڑی اور تماشائی کو منہ پر رومال پہن کر اور فلسطینی جھنڈے لے کر نعرے لگارہے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے خلاف احتجاج نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ طلبہ اس بات کا بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والی کمپنیوں سے قطع تعلق کیا جائے۔ غزہ کے بہادر مزاحمت کاروں نے دنیا کو حیران کردیا ہے، معمولی ہتھیاروں کے ساتھ اسرائیل کے حفاظتی نظام کا بت پاش پاش کردیا۔ صہیونی قابض فوج ان کی ثابت قدمی کا بال بیکا نہ کرسکی، البتہ خود صہیونی افواج کے کرنل اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے کے آٹھ سو زیادہ فوجیوں نے استعفا دے دیا۔ یہ تعداد ایک سال میں فوج سے سبکدوشی کے لیے استعفوں کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ غزہ جنگ میں اسرائیل اپنے تمام علانیہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے۔ حماس اور فلسطین مزاحمت کے خاتمے کے علاوہ وہ غزہ کے عوام کے عزم و ہمت میں بھی لغزش پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ مزاحمت کی روح غرب اردن اور لبنان میں بھی بیدار ہوگئی ہے۔ موجودہ حالات میں اسرائیلی افواج غزہ کے کچھ علاقوں سے پچھلے ہٹ گئی ہے۔ امریکا کی حمایت سے عرب ثالث جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں تا کہ حماس کے ہاتھوں قیدی اسرائیلیوں کو رہا کیا جاسکے اور اس کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کو بھی آزاد کیا جاسکے۔ اس کے تحت کچھ فلسطینی قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا جن پر حد سے زیادہ مظالم کیے گئے تھے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں ہمارے فلسطینی شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی گوانتا ناموبے اور ابوغرائب جیسے بدنام حراستی مراکز میں بھی مثال نہیں ملتی۔ اس قدر مظالم کے بعد بھی فلسطینیوں کے جذبہ ٔ حریت کو شکست نہیں دی جاسکی۔ حماس کے لیے ایک اہم حمایت ایران کی ہے ایران کے نومنتخب صدر نے اسماعیل ہنیہ کے نام اپنے مکتوب میں فلسطینی قوم کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا ہے۔ لبنان کے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے حماس کی مکمل حمایت ہے اور کہا ہے کہ حماس مذاکرات میں جو قبول کرے گی ہم سب کو قبول ہے۔ اگر اسرائیل جنگ بند کرنا چاہتا ہے تو پہلے غزہ کے خلاف جارحیت بند ہوگی۔ تائید و اتحاد کے یہ اشارے امید افزا ہیں۔