ایران میں طاقت کے کھیل میں علما کا مرکزی نہ سہی مگر بہت اہم کردار رہا ہے۔ فیصلہ سازی سے لے کر بہت سے اعلیٰ مناصب کی صورت میں اپنا حصہ پاتے رہے ہیں۔ علماء کا ادارہ ہی ریاست کو مجموعی طور پر توانائی اور تازہ خون مہیا کرتا ہے اور ریاست اور عام آدمی کے درمیان موثر رابطوں کا ذریعہ بھی علماء ہی رہے ہیں۔ انقلاب کے بعد سے ایران ایک کشمکش کے ماحول سے گزر رہا ہے۔ کشمکش کے ماحول کا اپنا ایک کلچر ہوتا ہے۔ بہت سے فیصلوں کو ہنگامی حالت کا جبر اور مجبوری سمجھ کر اپنایا جاتا ہے۔ کشمکش کی اس کیفیت کو نصف صدی ہونے کو ہے۔ اس دوران کئی نسلیں جوان ہوئیں۔ دنیا کئی ذہنی اور سائنسی انقلابات سے دوچار ہوئی۔ ٹیکنالوجی کے استعمال نے سوچ کے زاویے اور انداز بدل دیے۔ اس دوران سرد جنگ بھی ختم ہوئی اور اس کے نتیجے میں دنیا ایک نئی تقسیم سے آشنا ہوئی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ایک عالمی گائوں میں بدل دیا۔ کہاں امام خمینی کا عہد جب فرانس سے ان کے آڈیو کیسٹس ایران میں جلتی پر تیل کا کام دیتے تھے کہاں موبائل اور اس کے ذریعے دنیا کے ساتھ جڑ جانے کا زمانہ کہ جب لمحوں میں تہران کی بات آڈیو اور ویڈیو کے ساتھ کسی انسانی رابطے کے بجائے فقط مواصلاتی رابطے کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ اس گلوبلائزیشن نے ایران کے نوجوان کو بھی ذہنی اور عملی طور پر انقلاب آشنا کیا ہے اور وہ ہمہ وقت انقلاب کے اندر سے انقلاب برآمد کرنے کی تگ ودو میں نظر آتا ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی کی حادثاتی موت کے بعد ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایک معتدل مزاج طبیب مسعود پزشکیان کی کامیابی نوجوانوں کی سوچ کے بدلتے ہوئے زاویوں کی عکاس سمجھی جا رہی ہے۔ ابراہیم رئیسی علماء کی طاقت اور بالادستی کی آخری علامتوں میں تھے اور ان کی جگہ پر کرنے کے لیے نوجوانوں کا اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا تو وہ ماضی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے بجائے ایک ایسے معتدل مزاج شخص کو آگے لایا جو نوجوانوں کے مقبول جذبات کے بارے میں ہمدردانہ جذبات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ایران میں ایک نوجوان لڑکی مہسا امینی کی پولیس کی تحویل میں موت نے ایران کی نئی نسل کو مشتعل کر دیا تھا۔ اس نوجوان خاتون کو ایران کی اخلاقی معاملات سے وابستہ پولیس نے سر نہ ڈھانپنے کی بنا پر گرفتار کیا تھا اور چند دن بعد ہی اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی۔ اس کے بعد ایران میں احتجاج کا سلسلہ چل نکلا اور فطری طور پر نوجوانوں کے احتجاج کا رخ اسی قوت کی جانب تھا جو براہ راست اس میں شریک تھی۔ اخلاقی معاملات سے وابستہ پولیس کا تعلق چونکہ علماء کے ادارے سے ہے اور اسی لیے احتجاج کا رخ بھی جبہ ٔ ودستار کی جانب ہوگیا۔ یہ تحریک مولویوں کو جانا ہوگا اور پگڑیوں کو گرائو جیسے نعروں کے گرد گھومتی رہی۔ یہاں تک کہ پبلک مقامات پر علماء کے سروں سے پگڑیاں گراکر کیمروں میں مناظر محفوظ کیے گئے۔ اس تحریک کا مرکز ومحور ایران کی نئی نسل تھی تو ساڑھے چار عشرے کے حالات سے بیزار تھے اور ایران میں ایسی اصلاحات چاہتے تھے کہ کشمکش کے مستقل ماحول اور ہنگامی حالت سے چھٹکارا حاصل ہو۔
نئی نسل چونکہ حالات سے تنگ آچکی ہے اور اس بیزاری کا نشانہ علماء کے ادارے کو بننا پڑرہا ہے۔ رہبر انقلاب سے لیکر کئی صدور وزرائے اعظم اور عدالتی سربراہان سمیت اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات کا تعلق اسی ادارے یا طبقے سے رہا ہے اس لیے جو نوجوان حالات سے تنگ آتے ہیں ان کا ہدف یہی ادارے ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایرانی نوجوانوں کو وسیع دنیا سے کاٹ کر رکھنے کا باعث یہی ادارے اور پالیسیاں ہیں۔ بی بی سی کی ایک چشم کشا رپورٹ میں تو یہاں تک کہا گیا نوجوانوں کی اس بیزاری کا اثر مساجد پر بھی پڑ رہا ہے۔ نوجوانوں کی تعداد نہ ہونے کے باعث مساجد کو بند کیا گیا۔ یہ ایران میں علماء کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن ہے اور جس سے ایک خلا پید ہونا فطری ہے۔ نوجوانوں کے جذبات کے پریشر ککر کی بھاپ کو مسعود پزشکیان کی صورت میں باہر نکلنے کی راہ ملی تو انہوں نے اپنی سی کر گزرنے میں معمولی سی لغزش نہیں دکھائی اور ایرانی مقتدرہ کے امیدوار کے مقابلے میں مسعود پزشکیان کو کامیاب بنایا۔ مسعود پزشکیان نسل نو کے جذبات کے مطابق پالیسیاں اپنا سکتے ہیں یا نہیں یہ الگ معاملہ ہے مگر اس سے نوجوانوں کے جذبات کی بھاپ کسی حد تک نکلنے کا سامان ہوگیا۔ جن دنوں ایران میں نوجوانوں کی مقبول لہر چل رہی تھی عین اسی دوران پاکستان میں حکومت کی تبدیلی یا رجیم چینج سے شروع ہونے والا احتجاج زوروں پر تھا۔ اس احتجاج میں نوجوان طبقے کا سب سے زیادہ حصہ تھا اور وہ جدید ذرائع ابلاغ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
پاکستان میں چونکہ پچھتر سال سے اسٹیبلشمنٹ کا کردار بہت مرکزی ہے اس لیے نوجوانوں کے جذبات کا رُخ بھی فطری طور اسی جانب تھا۔ نوجوان نسل کو ہر ایسی مہم میں اسٹیبلشمنٹ کا دست وبازو سمجھا جاتا تھا مگر پہلی بار مقتدرہ کی بنیادوں سے نوجوانوں کی اینٹیں سرک گئیں اسی لیے مقتدرہ نے اپنے بیانیے کو آگے بڑھانے اور مقبول بنانے کے لیے جو میزائل داغا مس فائر ہو کر گر گیا۔ یہاں تک کہ قاسم شاہ جیسے قادر الکلام موٹیویشنل اسپیکر اور کئی جغادری صحافی سب اس میدان میں چلے ہوئے کارتوس ثابت ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بدلتی ہوئی دنیا اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے لوگوں کو اپنے حالات کی وجہ جاننے کے شعور سے بہرہ مند کیا ہے۔ لوگ اس موٹیویشنل اسپیکر کی تقریر کو کیا کریں جو دنیا میں اپنی کرنسی کی بدترین گراوٹ اور اس کے نتیجے میں معاشی حالات کے بھنور میں گھر کر رہ گئے ہیں اور دائیں بائیں کے پڑوسی ممالک کہیں سے کہیں پہنچ گئے ہیں۔ اس حقیقت کے باعث نوجوان مصنوعی اور فرضی بیانیوں سے قابونہ کیے جا سکے اور وہ انتخابات میں اپنی جذبات کی بھاپ نکالنے کی راہ پر چل نکلے۔ آج حالات یہ ہیں کہ جن سرکاری ٹویٹر اکائونٹس سے کیے جانے والے ٹویٹس پر نوجوان ری ٹویٹس اور لائیکس کے ذریعے پروانہ وار گرتے تھے اب وہی نوجوان ان کی طرف دیکھنا ہی بھول بیٹھے ہیں۔ نئی نسل کے اضطراب اور بے چینی کا حل مصنوعی بیانیوں کے ذریعے تلاش کرنے کے بجائے یا تو ان کے جذبات سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا یا پھر ایران کی طرح اس پریشر ککر کا ڈھکن کھولنا پڑے گا۔ اس کے سوا ایران کی ہی طرح پاکستان کی اس مشکل کو کوئی اور حل نہیں۔