بچوں کے حقوق کا تحفظ اوروفاقی محتسب کا اہم کردار

317

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے 1959 میں منظور شدہ بچوں کے حقوق کا اعلامیہ ایک اہم دستا ویز ہے، جس میں بچوں کی صحت کی دیکھ بھال، اچھی غذائیت، تعلیم اور بچوں کے حقوق کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس اعلامیہ نے آگے چل کر بچوں کے حقوق سے متعلق بین الاقوامی قانون سا زی کے لیے ایک بنیادی دستاویز کا کام کیا اور متنوع سیاق و سباق میں بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے بننے والے قوانین اور پالیسیوں کے بارے میں پوری دنیا کی رہنمائی کی۔ 1989 میں عالمی رہنماؤں نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی صورت میں دنیا بھر کے بچوں کے ساتھ ایک ہمہ گیر عہد کیا۔ جس میں حکومتوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے حقوق کی بھی بھرپور وضاحت کی گئی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے بچوں کی حالت کو بہتر بنانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک میں بہتری لانے کے لیے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ یہاں یہ بات خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ وفاقی محتسب نے بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں اپنی کوششیں تیز تر کرتے ہوئے ایک نمایاں کردار ادا کیا اور اس سلسلے میں وفاقی محتسب کا عزم غیر متزلزل رہا۔ بچوں کی فلاح و بہبود کو متاثر کرنے والے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے پیش نظر، وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں دفتر شکایات کمشنر برائے اطفال (Office of The Grievance Commissioner for Children) کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی طرف سے وفاقی محتسب کے ’’تشخیص، تفتیش اور کسی شکایت کے ازالے اور اصلاح‘‘ کے مینڈیٹ پر عملدرآمد کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے تا کہ اس سلسلے میں درپیش چیلنجوں اور رکاوٹوں کی اصل و جوہ کی نشاندہی کر کے اور مناسب طریقۂ کار وضع کر کے ان رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے نیز اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی عمل کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کیا جا سکے۔
پاکستان کی آبادی 240 ملین سے زیادہ ہے جس کا 58فی صد بچوں اور نوعمر لڑکوں پر مشتمل ہے چنانچہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کم از کم چار شعبوں میں ان کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔ (الف) بچوں کی صحت اور بہبود (ب) بچوں کی غذائیت اور انہیں مناسب خوراک کی فراہمی کیوں کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور 2022 کے سیلاب اور اس کے اثرات کی وجہ سے غذائی تحفظ کی صو رت حال مزید خراب ہو چکی ہے۔ (ج) بنیادی تعلیم اور اسکولنگ کیوں کہ پاکستان میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد بہت زیا دہ ہے (د) بچوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ، جو کہ بچوں کی اسمگلنگ، چائلڈ لیبر اور بچوں کے خلاف سائبر کرائمز سمیت دیگر نا پسندیدہ کارروائیوں کے باعث سب سے زیادہ خطرناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔
بچوں کے حقوق کے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے، شکایات کمشنر برائے اطفال (OGCC) ایک نگران ادارے کا کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان میں بچوں کی حالت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کلیدی حکمت عملی میں، دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ، ایسی میڈیا رپورٹس پر نگاہ رکھنا بھی شامل ہے جن میں بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہوتی ہے تاکہ مختلف سطحوں پر صوبائی حکام سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی روابط کو ممکن بنا کر طے شد ہ مقاصد اور نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ مذکورہ بالا صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، مندرجہ ذیل چند اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں:
(1) بچوں کے حقوق سے آ گاہی کے لیے ”Promotion & Protection of Child Rights” کے عنوان سے ایک تفصیلی کتابچہ شائع کیا گیا ہے۔ (2) بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات اور ان کے موثر ازالے کے لیے OGCC میڈیا میں رپورٹ ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتا ہے۔ (3) اکتوبر 2022 میں اسلام آباد میں اسٹریٹ چلڈرن کی حالت زار کے بارے میں ایک تفصیلی اسٹڈی رپورٹ تیار کی گئی جس کی سفارشات انتظامی اداروں اور پرائیو یٹ تنظیموں کو بھیجی گئیں کیونکہ یہ قانون سازی اور نجی شعبے کی مدد کی متقاضی تھیں۔ اب یہ سفارشات عملدرآمد کے مختلف مراحل میں ہیں، مثلاً فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (FDE)، این جی اوز کے ساتھ مل کر، اسلام آباد میں اسٹریٹ چلڈرن کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔ FDE اب تک NAVTTC کے تعاون سے 42 غیر رسمی تعلیمی مراکز اور 06 ٹیکنیکل لیبارٹریاں قائم کرنے کے علاوہ موجودہ اسکولوں میں تقریباً 18000 بچوں کو داخل کرا چکا ہے۔ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ اس تمام عمل میں متعلقہ اداروں سے رابطہ میں ہے۔ (4) OGCC نے بچوں کے خلاف سائبر کرائمز کی روک تھام کے معاملے کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا ہے اور اس سلسلے میں چار اہم سمتوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔
(الف) بیداری پیدا کرنا اور میڈیا میں احساس ذمہ داری بڑھانا (ب) صلاحیتوں میں اضافے کی وکالت (ج) قانونی اصلاحات اور (د) تعلیمی اصلاحات پیمرا، پی ٹی وی، پی بی سی، پی ٹی اے اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع سے عوامی خدمت کے پیغامات کو باقاعدگی سے پھیلانے کے ساتھ ساتھ عوام میں آگاہی پیدا کرنا اور اس معاملے میں میڈیا کے اندر حساسیت کو اجاگر کرنا ایک مسلسل عمل ہے۔ اسی طرح ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے تعاون سے بچوں کو سائبر کرائمز کے خطرے سے بچانے اور آگاہ کرنے کے لیے اس معاملے کو اسلام آباد میں متعلقہ اداروں کے ساتھ اٹھایا گیا۔ وفاقی محتسب کے ادارے کی جانب سے COMSATS یونیورسٹی اسلام آباد کے تعاون سے 30 نومبر 2023 کو ’’بڑ ھتے ہوئے سائبر کرائمز اور معاشرتی کمزوریوں‘‘ کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف سرکاری وزارتوں کے نمائندوں، اداروں اور اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔ سیمینار میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سائبر کرائمز کی ابھرتی ہوئی نوعیت کا مقابلہ کرنے والی ٹیکنالوجی کا حصول اور استعمال وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، جس کے لیے تمام شعبوں میں مسلسل موافقت، تعاون اور اختراعی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ وفاقی محتسب کا دفتر اپنی ذمہ دار یوں سے بخوبی واقف ہے اور اپنا کردار ادا کرنے کے تمام مواقع استعمال کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی محتسب کے ادارے میں بچوں سے متعلق کیسز کی رپورٹنگ کے لیے الگ سے ایک ہیلپ لائن نمبر 1056 بھی موجود ہے۔
جہاں تک بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں قانونی اصلاحات کا تعلق ہے، پارلیمنٹ کی جانب سے زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020 کی منظوری، پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے لیے قانونی اصلاحات میں اہم اقدامات کی عکاسی کرتی ہے جو کہ زینب انصاری کے نام سے منسوب ہے اور جس کے المناک کیس نے عوامی غم و غصے کو جنم دیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے گمشدہ یا اغوا شدہ بچوں کی تیزی سے اطلاع دینے اور انہیں جلد از جلد بازیاب کرانے کے لیے ایک جامع نظام قائم کیا گیا ہے۔ اسی طرح 18 جولائی 2023 کو پارلیمنٹ نے بچوں کے خلاف سائبر کرائمز کی روک تھام اور کنٹرول کے قانون میں ترمیمی ایکٹ منظور کیا جو کہ قانونی فریم ورک کو جدید چیلنجوں سے ہم آہنگ کرنے میں وفاقی محتسب کی مسلسل کوششوں کا غماز ہے۔ بچوں کی قومی کمیٹی (NCC) بھی ایک اہم فورم ہے جسے وفاقی محتسب نے قائم کیا، یہ کمیٹی مشاورت کے ساتھ کام کرتی ہے۔ اس کے مینڈیٹ میں بچوں کے حقوق خاص طور پر خطرات میں پڑنے والے بچوں کی حالت کی نگرانی اورحفاظت نیز شکایات کمشنر برائے اطفال (OGCC) کے ذریعے ان کی شکایات کا ازالہ اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت سے انتظامی مسائل حل کرنا شامل ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ کمیٹی بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے کے سلسلے میں جامع اور قابل عمل تجاویز پیش کرے گی۔ (بشکریہ: ادارہ وفاقی محتسب، اسلام آباد)