مودی نے شیر کی دْم پر پاؤں رکھ دیا

316

بھارت کے وزیر ِ اعظم نریندر مودی سمجھ رہے ہیں کہ اْن کی پانچوں انگلیاں گھی میں سر کڑاہی میں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ایسا کسی کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ جہاں بہت سی آسانیاں ہوتی ہیں وہیں بہت سی مشکلات بھی ہوتی ہیں۔ ہر کامیابی قیمت مانگتی ہے۔ قیمت کم ہو یا زیادہ، دینا تو پڑتی ہے۔ نریندر مودی نے تین دن قبل روس کا تین روزہ دورہ مکمل کیا۔ اس دورے میں اْنہوں نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو بھارت کا دوست اور روس کو بْرے وقتوں کا ساتھی قرار دیا۔ دونوں رہنماؤں نے درجنوں شعبوں میں اشتراکِ عمل بڑھانے کی بات کہی۔ مذاکرات کے نتیجے میں مفاہمت کی متعدد یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے۔
نریندر مودی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اْن کے روس کے دورے کی ٹائمنگ بہت خطرناک ثابت ہوگی۔ جب وہ ماسکو میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے گلے مل رہے تھے تب واشنگٹن میں معاہدہ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (ناٹو) کے قیام کے پچھتر برس پورے ہونے پر سربراہ اجلاس منعقد ہو رہا تھا۔ اس سربراہ اجلاس کے دوران جب مودی اور پیوٹن کے معانقے کی تصویر سامنے آئی تو امریکی قیادت خاصی بے مزا ہوئی اور اس بات کو یورپی قائدین نے بھی محسوس کیا۔ امریکا نے اس حوالے سے اپنی ناراضی ظاہر کرنے میں بخل سے بھی کام نہیں لیا۔ امریکا کے نائب وزیر ِ خارجہ کیمبل نے کہا کہ ہم نے بھارتی وزیر ِ اعظم کو خبردار کیا تھا کہ اس دورے کی ٹائمنگ پر نظر ِثانی کی جائے مگر بھارتی قیادت نے ایسا نہیں کیا۔ اْنہوں نے خبردار کیا کہ بھارت کی قیادت روس سے دوستی بڑھانے سے گریز کرے۔ اْن کا استدلال تھا کہ چین اور روس مل کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر کبھی موقع آیا اور ضرورت محسوس ہوئی تو روسی قیادت چین کے ساتھ جانا اور اْس کا ساتھ دینا پسند کرے گی۔
نئی دہلی میں امریکا کے سفیر گارسیکی نے بھی ایک ہفتہ قبل بھارتی قیادت سے کہا تھا کہ جب نریندر مودی ماسکو میں روسی صدر سے مل رہے ہوں گے تب امریکا واشنگٹن میں ناٹو سربراہ اجلاس کی میزبانی اور صدارت کر رہا ہوگا۔ انہوں نے دورے کو چار پانچ دن کے لیے موخر کرنے کو بھی کہا مگر بھارتی قیادت نے اْن کی بات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ واشنگٹن میں حکام کہتے ہیں کہ مودی کے روس کے دورے پر امریکی قیادت کو کچھ خاص اعتراض نہ تھا۔ سارا اعتراض ٹائمنگ پر تھا۔ امریکا نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ روس سے دوستی بڑھائی جائے مگر سوچ سمجھ کر کیونکہ بھارت کے مفادات اصلاً تو امریکا اور یورپ سے وابستہ ہیں۔ ان دونوں خطوں میں مجموعی طور پر 70 لاکھ سے زائد بھارتی باشندے کام کرتے ہیں اور اْن میں سے اچھے خاصے شہریت کے حامل بھی ہیں۔
بھارت کا معاملہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو والا ہے۔ وہ صرف فوائد بٹورنے کے چکر میں رہتا ہے، اپنا کردار ادا کرنے سے اْسے کچھ بھی غرض نہیں۔ امریکا اور یورپ کو یہ بات بہت کَھلی ہے کہ بھارت کْھل کر روس سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ پانچ ملکی اتحاد ’’برکس‘‘ میں بھی اپنی پوزیشن مستحکم کرتے ہوئے عالمی سطح پر وسیع تر کردار ادا کرنے کا متمنی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ بھارت عالمی سیاست و معیشت میں کیا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنے فرائض ادا کرنے کے معاملے میں ذرا بھی سنجیدہ نہیں۔
بھارت دونوں کشتیوں میں سفر کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ رند کا رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے۔ ایک طرف وہ امریکا اور یورپ کی ترقی سے بھرپور استفادہ کر رہا ہے۔ دوسری طرف اْس نے خلیجی ریاستوں میں بھی قدم جما رکھے ہیں اور اب تیسرے محاذ پر وہ روس کے ساتھ مل کر مزید معاشی امکانات تلاش کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ علاقائی و عالمی سطح پر اپنا حصہ مانگنے والی بھارتی قیادت عالمی سیاست و معیشت میں اپنا کردار کب ادا کرے گی۔ امریکا اور یورپ اگر دنیا کو چلاتے آئے ہیں تو اِس کی بھرپور قیمت بھی ادا کرتے آئے ہیں۔ کیا بھارت ایسی کوئی قیمت دینے کے لیے تیار ہے؟ امریکا اور یورپ کو یہ بات بْری طرح کَھل رہی ہے کہ بھارت اْن کی ترقی سے مستفید تو ہو رہا ہے مگر دوستی اور مفاہمت کا حق ادا کرنے کو تیار نہیں۔ جب کوئی ذمے داری قبول کرنے کی بات آتی ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
روس سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی بھارتی کوششیں یورپ کو یوں بھی ایک آنکھ نہیں بھائی ہیں کہ روس نے یوکرین پر جنگ مسلط کر رکھی ہے اور اس جنگ نے پورے یورپ کو سیکورٹی کے حوالے سے شدید تحفظات سے دوچار کر رکھا ہے۔ امریکا بھی یوکرین جنگ کے حوالے سے پریشان ہے کیونکہ روس کی فتح کی صورت میں امریکا کے لیے یورپ کو تحفظ دینے کی خاطر لامحالہ سامنے آنا پڑے گا۔ ایسے میں بھارت کا روس کی طرف جھکنا امریکا اور یورپ کو ناراض کرنے کا باعث بن رہا ہے تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ امریکا اور یورپ اس وقت یوکرین جنگ کے باعث الجھے ہوئے ہیں تاہم ایسے بھی الجھے ہوئے نہیں کہ بھارت کو سبق نہ سکھا سکیں۔ نریندر مودی کو خود اعتمادی کی لہر میں بہتے ہوئے بہت زیادہ آگے نکلنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس راہ میں واپسی کی گنجائش کم ہے۔ نئی دہلی کے لیے معقول رویہ یہ ہے کہ روس کی طرف بڑھنے سے قدرے گریز کرے۔ ناٹو کی پچھترویں سالگرہ اور سربراہ کانفرنس کے موقع پر پیوٹن کو گلے لگا کر اْنہوں نے اچھا پیغام نہیں دیا۔ اگر امریکا اور یورپ نے بھارتی باشندوں کے حوالے سے کچھ کرنے کی ٹھانی تو معاملات دیکھتے ہی دیکھتے بہت بگڑ جائیں گے۔