تاریخ کے کفن میں لپٹے حقایق

976

امریکن پروفیسر ڈی سچو مان نے ایشین پولیٹکس پر 3 جون 1949 کو نیو یارک میں اپنے ایک لیکچر میں پاکستان کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا، آج وہ سچ ثابت ہوا، پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان جنوبی ایشیا کی ایک ایسی ریاست ہے، جو غلامی کی زنجیروں کے ساتھ معروض وجود میں آئی ہے اور اس کے حکمران خود غرضی کے دائرے سے باہر کام نہیں آسکتے، کیونکہ یہ سب انگریزوں کے وفادار ہیں، میری بات کو وقت ثابت کرے گا کہ یہ ملک ایک دہائی سے زیادہ چلنے والا نہیں، جس کا سبب قوم کی بے حسی ہوگی، میرے الفاظ یاد رکھنا کیونکہ میں ان کو خوب اچھی طرح جانتا ہوں، پھر اْسی زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی وہی بات کی کہ پاکستان پر رفتہ رفتہ وہی لوگ قابض ہو جائیں گے جو آج بھی انگریزوں کے غم خوار اور نمک خوار ہیں۔ یہ ملک امرا کی جنت بنے گا اور 99فی صد سفید پوش طبقے کے لیے جہنم۔

آج ہمارا حال بالکل ایسا ہی ہے، ہم ان مفاد پرست حکمرانوں اور اشرافیہ کے ہاتوں ہونے والے ہر ظلم کو گردن جھکا کر برداشت کر رہے ہیں، برسوں پہلے جس کی نشاندہی کی گئی، اور اب اس ملک کی 24 کروڑ عوام تاریخ کے کفن میں لپٹی ایک مردہ قوم بنی ہوئی ہے، کیونکہ جب ایک قوم اپنی اخلاقی اور روحانی اقدار کو بھلا دیتی تو اخلاقی انحطاط کا شکار ہو جاتی ہے تو یہ اس کی تباہی کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔ پھر دینی تعلیمات کو نظر انداز کرنا اور اخلاقی اصولوں سے دوری بھی قوم کی بربادی کا سبب بنتی ہے، پھر تعلیم و تربیت کا فقدان قوموں کو جہالت کی گہری کھائی میں دھکیل دیتا ہے اس کی وجہ علم کی روشنی جب ماند پڑنے لگے اور تعلیمی معیار گرتا جائے تو قوم کا مْستقبل بھی تاریک ہو جاتا ہے۔

آج ہماری تباہی کا ذمے دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں، ہماری تباہی کی اصل وجہ اتحاد کا فقدان ہے۔ قوموں کا اتحاد اْن کی مضبوطی کا ضامن ہوتا ہے، جب قومیں فرقہ واریت، علاقائیت، اور ذات پات کی تقسیم کا شکار ہو جائیں تو ان سے قوت کا عنصر ختم ہو جاتا ہے اور وہ بکھر کہ رہ جاتی ہیں، اور حکمرانی کرنے والا طبقہ اور اشرافیہ مل کر نہ صرف اس سے فائدہ اْٹھاتے ہیں اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو اپنے جوتوں کی نوک پر رکھ کر ہوا میں اْڑا دیتے ہیں جس کی بہترین مثال مریم نواز اور بلاول زرداری کی ہے، جو الیکشن سے پہلے اپنے جلسوں میں اس مردہ قوم کو دو سو اور تین سو یونٹ بجلی مفت دینے کا وعدہ کرتے رہے پھر حکمرانی کے منصب پر بیٹھ کر سارے وعدے بھول گئے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ ایک مردہ قوم ہے جو نہ احتساب کر سکتی ہے نہ انقلاب برپا کر سکتی ہے۔

پنجاب میں کسی نے مریم نواز سے پوچھا کہ 200 یونٹ فری بجلی کا وعدہ کیا ہوا، سندھ میں بلاول سے کسی نے پوچھا کہ 300 یونٹ بجلی کا نعرہ یاد ہے، کیونکہ یہ حکمراں جانتے ہیں کہ ہم آئینی اصولوں اور قوانین کو پامال کرتے رہیں گے، عوامی حقوق کو دباتے رہیں گے ہیں، آئین کی خلاف ورزی کرتے رہیں گے، اور عدلیہ کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اپنی من مانیاں کرتے رہیں گے۔ یہ علاقائی اور صوبائیت میں بٹی قوم ہمارا کچھ نہیں کر سکتی، دوسری طرف وزیر خزانہ فائلر اور نان فائلر کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور قوم کا خون چوْس رہے ہیں، اور پوری قوم سر جھْکائے ظلم برداشت کر رہی ہو، ان تمام عوامل کا اثر قوموں کو زوال کی گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ اس لیے مردہ قوموں کا انجام تاریخ میں ایک عبرت کا مقام رکھتا ہے، روز روز مرنے سے بہتر ہے ایک ہی دن مر جائیں۔ بے حسی اور مردہ قوم کی طرح جینے کا کیا فائدہ، لاکھوں روپے ہر ماہ ادائیگی کے بعد بھی نہ بجلی میسر ہے نہ گیس، نہ پانی، اور مہنگائی اپنے عروج پر، مگر پوری قوم سر جھْکائے سارے بل ادا کر رہی ہے، جبکہ دوسری طرف چند ہزار حکمران اور اشرافیہ کو یہ 24کروڑ عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے اپنے ٹیکسوں سے پال رہی ہے ان کو گیس، بجلی، پانی، پٹرول، قیمتی گاڑی، مفت ہوئی سفر سے لیکر بڑے بڑے محل نما گھر ان کے بچوں کو امریکا لندن میں اعلیٰ تعلیم پْر آسائش زندگی سب فراہم کر رہی ہے، مگر ہم نہیں جانتے تو اپنا حق لینا نہیں جانتے اور آٹے میں نمک کے برابر ان سیاسی فرعونوں کے گریبانوں تک ہمارے ہاتھ نہیں پہنچتے، یہی مردہ قوموں کی نشانیاں ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لیے بھی متحد ہونا نہیں چاہتے۔

یاد رکھیں حقوق کی جدوجہد میں اتحاد اور یکجہتی بہت ضروری ہے، جو قومیں ان حالات کا سامنا کرتی ہیں اور پھر بھی خاموش رہتی ہیں اور اپنی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرتی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کرتی، وہ قومیں مردہ قومیں کہلاتی ہیں۔ آئیے اْن لوگوں کی آواز بنیں جو آپ کا مقدمہ ان کرپٹ حکمرانوں سے لڑ رہے ہیں، جو قانونی اور اخلاقی طریقے سے آپ کے مطالبات منوانے کا بہترین طریقہ جانتے ہیں، اس کے باوجود بھی آپ متحد نہیں ہوئے تو جان لیجیے آپ کے اندر بھی مردہ قوموں کی نشانیاں موجود ہیں، کیونکہ وہ قوم کبھی زندہ نہیں رہتی جو اپنے حقوق کا دفاع کرنا نہیں جانتی، پھر ایسی قوم تاریخ کے صفحات پر عبرت کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے، زندہ قوموں کی طرح جینا ہے یا مردہ قوم یہ فیصلہ اب آپ کو کرنا ہے۔