ایک خبر کے مطابق سعودی عرب میں اسی سال ماہ مئی میں ساحل سمندر پر خواتین کے پہننے والے تیراکی کے لباس کی نمائش کا اہتمام ہوا جس میں مراکش کی ڈیزائنر کے تیار کردہ سوئمنگ سوٹس مختلف ممالک سے آئی ماڈلز سمیت فیشن کی دنیا کے ناموں نے کیٹ واک کے ذریعہ زیادہ تر ون پیس ڈیزائنز پیش کیے۔ معاصر جریدے کے مطابق پاکستان شوبز انڈسٹری کے (سعودی عرب میں پیدا ہونے والے) اداکار بلال قریشی نے اس شو پر شدید غصے کا اظہار کیا، انہوں نے اپنے آفیشل انسٹاگرام میں ایک پوسٹ شیئر کی جس میں بتایا گیا کہ اسلامی ملک سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار سوئمنگ سوٹ فیشن شو کا انعقاد کیا گیا جس میں ماڈلز نے نیم برہنہ سوئمنگ سوٹ پہن کر کیٹ واک کی۔ ان کے بقول سعودی عرب میں دین اسلام کے اصول اور قوانین پر سختی سے پیروی ہوتے دیکھی، انہوں نے کہا کہ بحیثیت مسلمان سعودی عرب میں اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور جس طرح مغربی کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے وہ سب دیکھ کر دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اکثر لوگ جن کے علم میں بھی سعودی عرب کے بدلتے ہوئے حالات ہیں، ہو سکتا ہے ان کے خیالات قریب قریب بلال قریشی جیسے ہی ہوں۔ پاکستان میں تو ایک عرصہ سے برائڈل شو اور کیٹ واک کا سلسلہ جاری ہے اگر یہ کہا جائے کہ کیٹ واک کی آڑ میں لباس کم اور خواتین کی زیادہ نمائش ہوتی ہے تو اس سے انکار ممکن نہیں۔
ایک دوسری خبر کے مطابق سعودی عرب کی ماڈل رومی القحطانی نے ملائشیا میں ’مس اینڈ مسز گلوبل ایشیا منعقدہ فروری 2024‘ مقابلہ ٔ حسن کے دوسرے ایڈیشن میں شرکت کی تھی، وہ مقابلہ ٔ حسن میں شرکت کرنے والی پہلی سعودی ماڈل ہیں۔ اس حوالے سے محتاط تصاویر اخبارات میں شائع ہوئیں لیکن بے باکانہ تصاویر خود اسی ماڈل نے اپنی انسٹاگرام پر شیئر کیں۔ اب تو بعض اخبارات بھی باقاعدہ اس قسم کی خبروں کی اشاعت کے ساتھ خبر کے اندر ہی اپنے کمنٹس لکھنے پر مجبور ہیں کہ شائقین ان ماڈلز اور اداکاراؤں کو دیکھنے کے متمنی ہیں۔ بلال قریشی کے استدلال کو دیکھتے ہوئے اس حوالے سے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں، کیا قوانین شرعیہ کا نفاذ صرف سعودی عرب میں ہی ضروری ہے یا دیگر اسلامی ممالک میں بھی ان کو لاگو ہونا چاہیے؟ کیا قوانین شرعیہ کی خلاف ورزی صرف سعودی عرب میں ہی قابل گرفت، قابل مذمت اور دل توڑنے کے مترادف ہے؟ کیا پاکستان میں شرعی قوانین کی خلاف ورزی نا قابل گرفت ہے اورنہ اس پر دل نہ ٹوٹنا چاہیے؟۔ بلاشبہ بحیثیت مجموعی پوری دنیا کی نظریں سعودی عرب پر ضرور ہوتی ہیں لیکن قرآنی احکامات اور فرمان نبوی صرف مکہ مدینہ تک مقید نہیں اور تمام عالم میں اس کا نفاذ ہر مسلمان کی دیر نہ خواہش اور جذبہ قابل تحسین ہے، اس کے ساتھ یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ سر دست پوری مسلم دنیا میں اگر کوئی ایسی تبدیلی آ سکتی ہے کہ اس کے اثرات نہ صرف مسلم دنیا بلکہ تمام دنیا پر پڑ سکتے ہیں تو وہ سعودی عرب کے بعد پاکستان ہے۔
معاصر جریدہ میں شایع ہونے والی تیسری خبر کے مطابق معروف اداکارہ و ماڈل ماہ نور حیدر نے ایک انٹرویو میں اپنے از خود سوال کہ انہوں نے شادیوں میں ڈانس کرنا کیوں چھوڑ دیا؟ کا جواب دیتے ہوئے ماضی کا ایک قصہ سناتے ہوئے وجہ بتائی اور کہا کہ ’’میں ایک شادی میں گئی ہوئی تھی، وہاں دلہن کی بہن ڈانس کر رہی تھی، وہ لڑکی بہت خوبصورت تھی اور ڈانس بھی بہت اچھا کر رہی تھی کہ میں اسے دیکھتی دیکھتی کھو گئی، تھوڑی دیر بعد جب میں نے ارد گرد دیکھا تو شادی میں موجود دیگر افراد خاص طور سے لڑکے بھی اسے اسی نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے میں دیکھ رہی تھی بس فرق یہ تھا کہ میں اس کا ڈانس دیکھ رہی تھی اور وہ اس لڑکی کو دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دن فیصلہ کیا کہ اب میں ڈانس نہیں کروں گی کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے بھی ایسی نظروں سے دیکھے‘‘۔ مذکورہ خبر میں اداکارہ نے ایک بہت بڑی حقیقت سے آشکارا کیا ہے کہ عورت عورت کو کس نظر سے دیکھتی ہے اور مرد عورت کو کن نظروں سے دیکھ سکتا ہے۔
بظاہر تو یہ تین علٰیحدہ علٰیحدہ وقتوں کی خبریں ہیں لیکن ایک اعتبار سے یہ پیہم جڑی ہوئی خبریں اور ان میں ایک ربط ہے جس کا تعلق ایک مسلمان معاشرہ میں در آنے والی عریانی، بے حیائی اور فحاشی سے ہے۔ رب کائنات نے جو پوری کائنات کا خالق ہے اس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا اور اس کے لیے کتاب رہنمائی قرآن مجید کو نازل کیا، انسان کی تخلیق کے ساتھ اس نے اس کی جبلت بھی بنائی لیکن اسے متعین حدود و قیود کا پابند بنایا، کیوں بنایا؟ یہ اس کی حکمت ہے؛ ایک مسلمان کو قرآن مجید نے ساتر لباس، نظریں نیچی رکھنے اور خواتین کو دبی آواز میں بات کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان واضح احکام الٰہی سے انحراف کی متعدد وجوہات میں ایک اہم وجہ ہمارے خودساختہ مفاہم اسلام ہیں جو احکام الٰہی اور ارشادات نبوی کی ضد ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے میں جو خرافات نظر آرہی ہیں اس کا ایک مظہر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ ماڈل و اداکارہ ماہ نور حیدر نے تو شادیوں میں ڈانس سے معذرت کرلی لیکن یہ ڈانس جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے یا ٹیلی وژن پر آنے والے حیا سے عاری مزاحیہ پروگرام اور کمر شل اشتہار یا شارٹ ویڈیوز جس میں خواتین بے باکانہ انداز میں، شاعری کرتے، گانا گاتے، انٹرٹینمنٹ اور کبھی دل لگی اور ناز و اداؤں کے ساتھ دل لبھانے والے انداز کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے اب گھر گھر تک پہنچ رہی ہیں، کیا یہ احکام الٰہی کی حکم عدولی اور ارشادات نبوی کی خلاف ورزی نہیں ہے؟۔ کسی بھی انتہا کی شروعات کسی ابتدا کے بغیر نہیں ہوتیں، عریانی اور فحاشی بھی ہمارے معاشرے میں مغرب کی نقالی میں آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے در آئی ہے، ٹیلی ویژن، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بتکرار اس سلسلے نے مجموعی طور سے معاشرہ کو بے حس بنا دیا ہے۔ لباس کو ہمارے ربّ نے اپنی نشانی اور انسان کی خوبصورتی بتایا ہے۔ خوبصورتی اس لباس میں ہے جو ستر پوش اور تقوے کا مظہر ہو، خوبصورتی بے لباسی میں نہیں، بلکہ شیطان کے بہکاوے کا نتیجہ ہے چاہے وہ کیٹ واک، فیشن شو، بیچ واک، برائڈل شو یا ثقافت کی آڑ یا کسی بھی شکل اور لبادے میں ہو۔
قرآنی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ شیطان کا حربہ یہی ہے کہ اولاد آدم کو وہ بے لباس کرے۔ آج مغربی معاشرت جس بے لباسی اور عریانی کا شکار ہے اس کی چھاپ اور نقالی ہمارے ٹیلی ویژن پر اور سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والے شارٹ ویڈیوز وغیرہ پر بری طرح اثر انداز ہے۔ ستر پوشی (ساتر لباس) اور نیچی نظریں رحمت خداوندی ہے جبکہ عریاں لباسی اور نظر بازی شیطان کا دکھایا ہوا راستہ جس پر چل کر نہ صرف ربّ کی ناراضی مول لینا ہے بلکہ اگر غلطی کا احساس ختم ہو جائے اور اسی راستے پر چلتے رہی تو یہ راستہ وہیں جارہا ہے جہاں شیطان اپنے ساتھ آپ کو لے جانا چاہتا ہے۔ بطور مسلمان ہم سب جنت کے امیدوار اور اپنے ربّ کی رحمت کے طلب گار ہیں۔ شیطان تو اپنے ڈھب پر لانے کے لیے کمربستہ ہے، کیا ہمیں اپنے ربّ کی ناراضی کا احساس ہے اور اس کو درست کرنے کے لیے ہم اپنے ربّ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگیوں، اپنے ماحول، اپنے گھروں کو اللہ کی اطاعت کے تحت لانے کو تیار ہیں؟۔