اسلام آباد(نمائندہ جسارت / صباح نیوز) پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پشاورہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیددیا ہے۔عدالت نے قراردیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف خواتین اوراقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی حقدار ہے۔جبکہ عدالت نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دینے کی استدعا مسترد کردی۔ فیصلہ 5کے مقابلہ میں 8کی اکثریت سے سنایا گیا۔
عدالت کی جانب سے مختصر فیصلہ سنایا گیا ہے تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ اکثریتی فیصلہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ کی جانب سے سنایا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں13 رکنی فل کورٹ فیصلہ سنانے کے لیے کمرہ عدالت پہنچی ۔ فل کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس سید منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید احسن ظہر حسن رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان شامل تھے۔ اکثریتی ججز میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔ جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل اورجسٹس جسٹس نعیم افغان نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اکثریتی فیصلہ 5کے مقابلہ میں 8ججز کا ہے جو کہ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے تحریر کیا ہے اوروہی فیصلہ پڑھ کرسنائیں گے۔ فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میںاٹارنی جنرل منصورعثمان عثمان، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند، ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد، سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ ، سردار لطیف خان کھوسہ ایڈووکیٹ، سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز، اراکین قومی اسمبلی علی محمد خان، ثناء اللہ خان مستی خیل، شیخ وقاص اکرم ، کنول شوزب اوردیگر پی ٹی آئی رہنمابھی موجود تھے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔سپریم کورٹ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے، پی ٹی آئی آئی اس فیصلے کے 15 روز میں اپنے مخصوص افراد کی نشستوں کے نام کی فہرست دے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی جائیں۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بطور پی ٹی آئی قرار دے دیا اور سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کر دیں۔عدالت نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 27جون 2024کودوران سماعت بتایا تھا کہ 80آزاد امیدواروں میں سے 39نے پاکستان تحریک انصاف سے وابستگی کاسرٹیفکیٹ جمع کروایا تھا۔ عدالت نے کہا کہ دیگر 41 امیدوار بھی 14 دن میں سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں کہ وہ سنی اتحادکونسل کے امیدوار تھے، سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے۔ فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے 80 امیدواروں کا ڈیٹا جمع کروایا، انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کاحق ختم نہیں ہوتا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے حوالہ سے شرائط پر پورا نہیں کرتی۔ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حقدار ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں وہ ایسا ہی رہے گا، پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا یا آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 7روز میں فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے۔جسٹس امین الدین خان نے اپنی رائے سناتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلوں کو برقراررکھنے کاحکم دیا۔جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا کہ وہ جسٹس امین الدین خان کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔جبکہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا اپنی رائے سناتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ جسٹس جمال خان مندوخیل کے فیصلے کے ساتھ ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور کوئی نشست نہیں جیتی اس لیے وہ مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی کل 336نشستیں جن میں سے 60خواتین اور10اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 224-6 کے تحت بچ جانے والی اضافی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے 13جنوری 2024کے فیصلے کی غلط تشریح کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو آزادقراردیا، ایسا کرنے کا الیکشن کمیشن کواختیار نہیں تھا، پی ٹی آئی یا کسی امیدوا ر نے آزاد قرار دیئے جانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج ہی نہیں کیا، آزاد امیدواروں نے خود سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، الیکشن کمیشن دوبارہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے، اب پی ٹی آئی کے منتخب ارکان یا خود کو آزاد یا پی ٹی آئی ڈیکلیئر کریں، پی ٹی آئی ارکان پر کسی قسم کا دبائونہیں ہونا چاہیے۔اس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ سنادیا گیا ، عدالت برخاست کی جاتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے انصاف کا علم بلند ہوا ، عوام رب کا شکر ادا کریں اور نوافل ادا کریں، ہمارا حق آخر کار ہمیں مل گیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے کہا کہ عدالتوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، فیصلے سے انصاف کا علم بلند ہوا۔شبلی فراز نے کہا کہ سیاسی تاریخ میں آج کا دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے، فارم47 کے ذریعے لوگ منتخب کرائے گئے، جب تک ہماری تمام سیٹیں واپس نہیں ملتیں جدوجہد جاری رہے گی۔ پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ مخصوص نشستیں تو مل گئیں، فارم47کے ذریعے چھینی گئی سیٹیں بھی دی جائیں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 25 کروڑ عوام اور جمہوری قوتوں کے لیے خوشی کا دن ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، سپریم کورٹ کے11 ججز نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کیلیے حق و انصاف کا فیصلہ دیا۔انہوں نے کہا کہ عوام رب کا شکر ادا کریں اور نوافل ادا کریں، پی ٹی آئی کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا، ہمارا حق آخر کار ہمیں مل گیا ہے، ہر ججز نے اپنے نوٹ میں یہی کہا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آٹھ پانچ کے تناسب سے فیصلے میں یہی کہا گیا کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں، الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے احکامات پر فورا عمل کرے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا سرٹیفکیٹ اسی ہفتے دے۔ علاوہ ازیں سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا آج سنہرا دن ہے، جب طاقتور اور جابر کے ارادوں کو عدالت نے مات دی‘ ہماری مخصوص نشستیں مال غنیمت سمجھ کر بانٹنے کے ارادے پاش پاش ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ عوام کی 8 فروری کی رائے کو سلب کیا گیا، ہماری منزل عوام کی رائے کو منوانا ہے، ابھی قانونی جنگ جیتی ہے، سیاسی جنگ بھی جیتنی ہے، ہم ہر سطح پر مزاحمت کریں گے۔ علی محمد خان نے کہا کہ عوام کو آئین کی جیت مبارک ہو، آج بھی قیدیوں کی وین شاہراہ دستور پر دکھائی دی، شاہراہ دستور پر قیدیوں کی وین اور بڑے بڑے ٹرک لانے کا سلسلہ بند کرو۔سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر فوری مستعفی ہوجائیں‘ الیکشن کمیشن نے مینڈیٹ چرانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکا، سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن پر اظہار عدم اعتماد کر دیا۔ فیصلے کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو چاہیے کہ وہ فوری استعفیٰ دیں۔انہوںنے کہاکہ آج بانی پی ٹی آئی کی جیت ہے اور آج کا دن عمران خان کے نام ہے۔ادھرفیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں نمبر گیم انتہائی دلچسپ شکل اختیارکرگیا ہے‘مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بننے کا امکان ہے‘23مخصوص نشستیں ملنے کے بعدپی ٹی آئی ارکان کی قومی اسمبلی میں تعداد 109 ہوجائے گی ‘تاہم حکمراں اتحاد کواسمبلی میںسادہ اکثریت حاصل رہے گی۔اس وقت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی سمیت مجموعی اپوزیشن 97 ارکان پر مشتمل ہے، پی ٹی آئی کے اس وقت 86 ارکان قومی اسمبلی کے ایوان میں موجود ہیں، پی ٹی آئی کے سنی اتحاد کونسل میں 84 جبکہ دو آزاد امیدوار بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب ہیں۔اپوزیشن اتحاد میں جے یو آئی ف 8، بی این پی مینگل ایک، ایم ڈبلیو ایم ایک، پی کے میپ کی ایک نشست ہے، پی ٹی آئی کو تمام مخصوص نشتیں ملیں تو پی ٹی آئی کی کل تعداد 109 ہو سکتی ہے، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں تو اپوزیشن اتحاد 120 ارکان پر مشتمل ہو جائیگا۔ چھ دیگر آزاد امیدوار قومی اسمبلی میں آزاد حیثیت میں موجود ہیں۔قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی تعداد 209 ہے جس میں مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد 108 اور پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 68 ہے۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم 21 ارکان بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہیں جبکہ ایک اقلیتی نشست معطل ہے۔ قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ کی پانچ، آئی پی پی کی چار نشستیں ہیں، مسلم لیگ ضیا کی ایک، بلوچستان عوامی پارٹی کی ایک اور نیشنل پارٹی کی بھی ایک نشست ہے۔