محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔ اس دن میں نبی اکرمؐ نے روزہ رکھا تھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پہلے تو یہ روزہ واجب تھا پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو مسلمانوں کو اختیار دے دیاگیا کہ چاہیں یہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں البتہ اس کی فضیلت بیان کردی گئی کہ جو روزہ رکھے گا اس کے سال گزشتہ کے چھوٹے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ پہلے یہ روزہ ایک دن رکھا جاتا تھا لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لیے آخر میں نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو ان شاء اللہ نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا لیکن اس خواہش پر عمل کرنے سے قبل ہی آپؐ کا وصال ہوگیا۔
عاشورہ کے روزہ سے متعلق احادیث
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور عاشورہ کو بیت اللہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔ جب رمضان فرض ہوا تو نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری)
دوسری روایت میں سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور نبی اکرمؐ بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی روزہ رکھا اور اس روزے کا بھی حکم دیا۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشورہ (کے روزے کا حکم) چھوڑ دیا گیا، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری)
سیدہ رْبیع بنت مْعوِذؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمؐ نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس نے صبح کو کھاپی لیا ہو وہ بقیہ دن پورا کرے (یعنی رکا رہے) اور جس نے ابھی تک کھایا پیا نہیں ہے وہ روزہ رکھے۔ فرماتی ہیں کہ وہ بھی یہ روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتی تھیں اور ان کے لیے اون کا کھلونا بناتی تھیں۔ جب کو ئی بچہ کھانے لیے روتا تو یہ کھلونا اس کو دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوتا۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے کہا یہ اچھا دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی، سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کامیابی عطا فرمائی۔ ہم اس دن کی تعظیم کے لیے روزہ رکھتے ہیں۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں، پھر آپؐ نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمؐ کو کسی دن کے روزے کا اہتمام اور قصد کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے عاشورہ کا روزہ اور رمضان کے مہینے کا۔ (بخاری) یعنی ان روزوں کا آپؐ بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔
سیدنا معاویہؓ حج کے لیے تشریف لائے تو نبی اکرمؐ کے منبر پر عاشورہ کو (کھڑے ہوکر) فرمایا: اے اہل مدینہ کہاں ہیں تمہارے علما، میں نے نبی اکرمؐ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ یہ عاشورہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم پر اس دن کا روزہ فرض نہیں کیا ہے، میں روزے سے ہوں، جو چاہے روزہ رکھے جوچاہے روزہ نہ رکھے۔ (صحیح بخاری)
عاشورہ کے روزے کا ثواب
رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ (صحیح مسلم) سیدنا ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ سال گزشتہ کے گناہ معاف فرمادیں گے۔ (ترمذی) ان احادیث میں گناہ سے صغائر گناہ مراد ہے، کبائر گناہ کے لیے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
عاشورہ کے روزے رکھنے کا طریقہ
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپؐ نے فرمایاکہ اگر آئندہ سال زندہ رہا تو ان شاء اللہ نویں کو (بھی) روزہ رکھوں گا لیکن آئندہ سال آپؐ کا وصال ہوگیا۔ (مسلم)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے روزہ رکھو یا ایک دن بعد۔ (مسند احمد) یہ حدیث بعض نسخوں میں او کی جگہ پر واو کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ اگر واو (یعنی اور) کے ساتھ روایت ثابت مان لی جائے تو پھر تین روزہ رکھنا ثابت ہوگا۔ اس طرح عاشورہ کے روزے رکھنے کی 4 شکلیں بنتی ہیں: 9 ، 10 اور 11 تینوں دن روزے رکھ لیں۔ 9 اور 10 دو دن روزہ رکھ لیں۔ 10 اور 11 دو دن روزہ رکھ لیں۔ اگر کسی وجہ سے 2 روزے نہیں رکھ سکتے تو صرف 10 محرم کا ایک روزہ رکھ لیں۔
خلاصۂ کلام
نبی اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ میں جب بھی عاشورہ آتا، آپؐ روزہ رکھتے، لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ آیا تو آپؐ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ 10 محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اْن کے ساتھ ہلکی سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔ اِس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ 9 یا 11 محرم الحرام کو رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔ لیکن اگلے سال عاشورہ آنے سے پہلے ہی نبی اکرمؐ کا وصال ہوگیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ نبی اکرمؐ کے اس ارشاد کی روشنی میں‘ صحابہ کرام نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ 9 یا 11 محرم الحرام کا ایک روزہ ملاکر رکھنے کا اہتمام فرمایا، اور اسی کو مستحب قرار دیا اور صرف عاشورہ کا روزہ رکھنا خلافِ اولیٰ قرار دیا۔ یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ اس کو عاشورہ کا ثواب ملے گا لیکن چونکہ آپؐ کی خواہش 2 روزے رکھنے کی تھی اس لیے اس خواہش کے تکمیل میں بہتر یہی ہے کہ ایک روزہ اور ملاکر دو روزے رکھے جائیں۔