جس کو ساری انسانیت کا امام بننا ہو‘ اس کو ہر لحاظ سے اپنے اندر وسعت پیدا کرنا ہوگی اور ایک دنیا کو اپنے اندر سمونا ہوگا اور ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اسے اپنے دل کے اندر وسعت پیدا کرنا ہوگی‘ وہ وسعت کہ جس میں سارے لوگ سما جائیں‘ دماغ کی وسعت کہ جو سارے افکار کا مقابلہ کرسکے‘ عمل کی وسعت کہ جوسارے انسانوں کو اپنے اندر سمیٹ سکے۔ جس کا دل تنگ ہو‘ جس کی نظر تنگ ہو‘ جس کا دماغ محدود ہو‘ جو اپنے ناک سے آگے نہ دیکھ سکتا ہو‘ وہ ساری دنیا کا امام نہیں بن سکتا۔ صحابہ کرامؓ قیصر وکسریٰ کے دربار میں کھڑے ہوکر کہا کرتے تھے کہ ہم تو اس لیے آئے ہیں کہ تم کو دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعت تک پہنچا دیں۔
جو اس جنت کا طلب گار ہو جس کی وسعت میں زمین وآسمان سما جائیں‘ نہ اس کا دل تنگ ہوسکتا ہے نہ نگاہ‘ نہ اس کا دماغ تنگ ہوسکتا ہے نہ فکر سطحی اور نہ اس کی نظر محدود ہوسکتی ہے۔ جس طرح ایک پرندہ سب انڈوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپالیتا ہے‘ اسی طرح وہ سارے انسانوں کو اپنے ساتھ لے کرچل سکتا ہے۔ اس کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات اور ماحول میں اپنے مشن کے اوپر‘ اپنے موقف کے اوپر تمام انسانوں کو جمع کرسکے۔ لہٰذا امامتِ عالم کے لیے مقاصد میں‘ دل میں‘ فکر میں‘ نظر میں اور رویوں میں تنگی کے بجاے وسعت ناگزیر ہے۔ اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ دین تو ہے ہی اس لیے کہ اس کے اندر سب لوگوں کو سمیٹ لیا جائے۔ یہ لوگوں کو بھگانے یا کاٹ پھینکنے کے لیے نہیں آیا۔یہ تو آیا ہی اس لیے ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے۔ اسی بات کے پیش نظر نبی کریمؐ نے ’بشروا ولا تنفروا‘ کی ہدایت کی‘ یعنی خوش خبری کی شیرینی سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچو اور متنفر مت کرو۔ اس لیے کہ مسلمانوں کو تو ساری دنیا کا امام بننا ہے۔ لہٰذا وہ معمولی معمولی بحثوں اور مسائل اور تنگ نظری کے اندر مبتلا نہیں ہوسکتے۔
اگر مسلمانوں کی 400 سال کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو جب مسلمان ایک کے بعد ایک ملک فتح کرتے ہوئے دنیا کے امام بنتے چلے جارہے تھے‘ ان کے درمیان اختلافات بھی تھے (سقیفہ بنی ساعدہ سے اختلافات شروع ہوگئے تھے)‘ جو سیاسی بھی تھے اور فقہی بھی‘ مگر ان سب کے باوجود وہ ایک تھے۔ چار امام اور بہت سے سیاسی اختلافات ہونے کے باوجود ان کے اندر وسعت تھی کہ وہ لوگوں کو اپنے اندر سمیٹ سکیں۔ اگر چند سو آدمی پورے اسپین پر غلبہ حاصل کرسکتے تھے اور چند سو آدمی پورے ہندستان پر غلبہ پاسکتے تھے‘ اورچند تاجر جاکر ہندستان کے ساحل‘ ملایشیا اور انڈونیشیا‘ ہر جگہ اسلام پھیلا سکتے تھے تو اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ان کے دل و نگاہ میں وسعت تھی۔ وہ لوگوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتے تھے‘ اپنے اندر جذب کرسکتے تھے۔ ہر رنگ‘ ہر مسلک اور ہر قسم کے انسانوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکتے تھے۔ اس لیے کہ جس کو امامتِ عالم کا منصب سنبھالنا ہو‘ اس کا ناگزیر تقاضا وسعت قلبی اور اختلافات کے باوجود لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔