افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

287

سنت و عاداتِ نبوی ﷺ
سنت کے متعلق لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ نبیؐ نے جو کچھ اپنی زندگی میں کیا ہے وہ سب سنت ہے۔ لیکن یہ بات بڑی حد تک درست ہونے کے باوجود ایک حد تک غلط بھی ہے۔ دراصل سنت اس طریق عمل کو کہتے ہیں جس کے سکھانے اور جاری کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو مبعوث کیا تھا۔ اس سے شخصی زندگی کے وہ طریقے خارج ہیں جو نبیؐ نے بہ حیثیت ایک انسان ہونے کے یا بہ حیثیت ایک ایسا شخص ہونے کے جو انسانی تاریخ کے خاص دور میں پیدا ہوا تھا‘ اختیار کیے۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک ہی عمل میں مخلوط ہوتی ہیں اور ایسی صورت میں یہ فرق و امتیاز کرنا کہ اس عمل کا کون سا جز‘ سنت ہے اور کون سا جز عادت‘ بغیر اس کے ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی اچھی طرح دین کے مزاج کو سمجھ چکا ہو۔
٭…٭…٭
اصولی طور پر یوں سمجھیے کہ انبیا علیہم السلام انسان کو اخلاقِ صالحہ کی تعلیم دینے اور زندگی کے ایسے طریقے سکھانے کے لیے آتے رہے ہیںجو فِطرَۃَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیھَا (الروم: 30) کے ٹھیک ٹھیک منشا کے مطابق ہوں۔ ان اخلاقِ صالحہ اور فطری طریقوں میں ایک چیز تو اصل و روح کی حیثیت رکھتی ہے اور دوسری چیز قالب و مظہر کی حیثیت۔ بعض امور میں روح اور قالب دونوں اسی شکل میں مطلوب ہوتے ہیں جس شکل میں نبی اپنے قول و عمل سے ان کو واضح کرتا ہے اور بعض امور میں روح اخلاق و فطرت کے لیے نبی اپنے مخصوص تمدنی حالات اور اپنی مخصوص افتاد مزاج کے لحاظ سے ایک خاص عملی قالب اختیار کرتا ہے اور شریعت کا مطالبہ ہم سے صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اس روحِ اخلاق و فطرت کو اختیار کرلیں‘ رہا وہ عملی قالب جو پیغمبر نے اختیار کیا تھا تو اسے اختیار کرنے یا نہ کرنے کی شرعاً ہم کو آزادی ہوتی ہے۔ پہلی قسم کے معاملات میں سنت روح اور قالب دونوں کے مجموعے کا نام ہے‘ اور دوسری قسم کے معاملات میں سنت صرف وہ روحِ اخلاق و فطرت ہے جو شریعت میں مطلوب ہے نہ کہ وہ عملی قالب جو صاحبِ شریعت نے اس کے اظہار کے لیے اختیار کیا۔
٭…٭…٭
مثال کے طور پر دین کا منشا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا ذکر کریں۔ اس کے لیے نبی نے بعض اعمال تو ایسے اختیار کیے جن کی روح اور عملی قالب دونوں سنت ہیں اور دونوں کی پیروی ہم پر لازم ہے‘ مثلاً: نماز‘ روزہ‘ حج‘زکوٰۃ وغیرہ اور بعض طریقے آپ نے ایسے اختیار کیے جن کی روح تو ہمارے اعمال میں ضرور پائی جانی چاہیے لیکن قالب کی ہوبہو پیروی کرنا لازم نہیں ہے‘ بلکہ ہم کو آزادی دی گئی ہے کہ ہم اس روح کے ظہور کے لیے جو عملی قالب مناسب سمجھیں اختیار کریں‘ مثلاً: دعائیں اور وہ عام اذکار جو حضورؐ وقتاً فوقتاً کرتے تھے۔ ہم پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہم بعینہ انھی الفاظ میں دعائیں مانگیں جن الفاظ میں حضور مانگتے تھے‘ البتہ سنت کی پیروی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دعائوں کے طرز اور ان کی معنوی خصوصیات کو ملحوظ رکھیں اور جن الفاظ میں بھی دعائیں مانگیں‘ ان کے اندر نبیؐ کی دعائوں کی روح موجود ہو۔
٭…٭…٭
اسی طرح اذکار میں سنت صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مختلف حالات واعمال میں خدا کو یاد کرتا رہے‘ اس سے استعاذہ کرے‘ اس سے مدد مانگے‘ اس کا شکر ادا کرے اور اس سے طلبِ خیر کرے۔ اس سنت کو حضورؐ نے اپنی عملی زندگی میں اْن مختلف اذکار کے ذریعے سے ظاہر اور جاری کیا جو حدیث میں مذکور ہیں۔ اگرکوئی شخص ان اذکار کو لفظ بلفظ یاد کر کے اسی طرح ان کا التزام کرے جس طرح حدیث میں بیان ہوا ہے تو یہ مستحسن یا مستحب تو ہوسکتا ہے لیکن اسے اتباع سنت کا لازمی تقاضا نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص اس سنت کواچھی طرح ذہن نشین کرکے کسی دوسرے طریقے سے اس پر عمل درآمد کرے اور اس کے لیے دوسرے الفاظ اختیار کرلے تب بھی وہ بدستور متبع سنت رہے گا اور اس پر خلاف ورزیِ سنت کا الزام عائد نہ ہوگا۔
٭…٭…٭
یہی فرق تمدنی اور معاشرتی حالات میں بھی ہے‘ مثلاً: لباس میں جن اخلاقی و فطری حدود کو قائم کرنا نبیؐ کے مقاصد بعثت میں تھا وہ یہ ہیں کہ لباس ساتر ہو‘ اس میں اسراف نہ ہو‘ اس میں تکبر کی شان نہ ہو‘ اس میں تشّبہ بالکفار نہ ہو‘ وغیرہ۔ اس روحِ اخلاق و فطرت کا مظاہرہ نبیؐ نے جس لباس میں کیا اْس میں بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کی پیروی جوں کی توں کرنی چاہیے‘ جیسے ستر کے حدود اور اسبالِ ازار سے اجتناب اور ریشم وغیرہ کے استعمال سے پرہیز‘ اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو حضورؐ کے اپنے شخصی مزاج اور قومی طرزِ معاشرت اور آپ کے عہد کے تمدن سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کو سنت بنانا نہ تو مقصود تھا‘ نہ ان کی پیروی پر اس دلیل سے اصرار کیا جاسکتا ہے کہ حدیث کی رْو سے اس طرزِ خاص کا لباس نبیؐ پہنتے تھے‘ اور نہ شرائع الٰہیہ اس غرض کے لیے آیا کرتی ہیں کہ کسی شخصِ خاص کے ذاتی مذاق یا کسی قوم کے مخصوص تمدن‘ یا کسی خاص زمانے کے رسم و رواج کو دنیا بھر کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنت بنا دیں۔
٭…٭…٭
سنت کی اس تشریح کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جو چیزیں اصطلاحِ شرعی میں سنت نہیں ہیں ان کو خواہ مخواہ سنت قرار دے دینا مِن جملہ ان بدعات کے ہے جن سے نظامِ دینی میں تحریف واقع ہوتی ہے۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ اوّل‘ ص 196)